A New US Strategy against the Muslim World

<--

مسلم دنیاکے خلاف امریکہ کی نئی حکمت عملی

امریکہ جس نے ماضی میں کبھی دہشت گردی اور کبھی کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے الزامات کے تحت بعض مسلم ممالک کے خلاف لشکر کشی ان میں مداخلت کی اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اب ایک بار پھر ان ہی عزائم مگر نئی حکمت عملی کے تحت سامنے آرہا ہے اگر مسلم دنیا اسی طرح اس کے آلہ کار کا کردار ادا کرتی رہی تو ایک بار پھر یہ ایک نئے بحران  اور انتشار سے دوچار ہوسکتی ہے اور اس کا اسے سراسر نقصان اور امریکہ کو فائدہ حاصل ہوگا۔امریکی انتظامیہ نے پہلے سعودی عرب کے ذریعے قطر کے خلاف بعض خلیجی ریاستوں کی طرف سے پابندیاں عائد کروائیں اور اس کے بعد امریکی انٹیلی جنس اداروں اور محکمہ خزانہ کی طرف سے رپورٹس جاری کی گئیں کہ قطر کے حکمران  آل ثانی خاندان کے افراد دہشت گرد تنظیموں کی معاونت اور القاعدہ جیسے گروپوں کی بھاری مدد اور  انہیں قطر میں پناہ دینے کے مرتب پائے گئے ہیں رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ قطری وزیر مذہبی امور و داخلہ عبداللہ بن خالد نے قطر میں قائم اپنے نجی فارم ہائوس میں ایک سو شدت پسندوں کو پناہ فراہم کی ان میں افغانستان میں لڑنے والے جنگجو القاعدہ  کے خالد شیخ محمد بھی شامل ہیں قطری وزارت مذہبی امور براہ راست ان شدت پسندوں کی مالی مدد بھی کرتی رہی ہے یہ بھی دعویٰ کیا گیا  کہ حکمران خاندان کی ایک اور شخصیت عبدالکریم آل ثانی نے عراق میں القاعدہ کمانڈر ابو مصعب زر تاوی کو پناہ دی اور 2002ء میں اسے افغانستان  منتقل سے عراق منتقل کرنے میں مدد دی ساتھ ہی اسے ایک بلین ڈالر رقم بھی مہیا کی اس قسم کے الزامات پر مبنی رپورٹوں کا امریکہ کی طرف سے اجراء ان شہات کو تقویت دیتا ہے کہ قطر کے خلاف کسی مرحلے پر فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محض اس  جیسی امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جنہیں ماضی میں سی آئی اے نے اس اعتراف کے ساتھ واپس لیا تھا کہ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے حوالے سے اس کی اطلاعات درست نہ تھیں’ امریکی عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے  ان لمحات میں مسلم حکمرانوں کو ہوشمندی اور دانشمندی سے کام لینا ہوگا اور موثر حکمت عملی کے ساتھ اسلام دشمن طاقتوں کے ان مذموم عزائم کے آگے بند باندھنا ہوگا۔

About this publication