Finally an Agreement on Iran's Nuclear Program

<--

جنیوا میں چار روز سے جاری مذاکرات رنگ لے آئے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آئندہ چھ ماہ کے دوران ایران جوہری سرگرمیوں کو محدود کر دے گااور یورینیم کی پانچ فیصد سے زیادہ افزودگی نہیں کرے گا، اس کے بدلے میں امریکہ اور مغربی ممالک ایران کو آئندہ چھ ماہ کے دوران معیشت کی بحالی کیلئے 7 ارب ڈالر دیں گے اور کوئی نئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔ وائٹ ہاﺅس میں بریفنگ دیتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا یہ معاہدہ دنیا کو محفوظ بنانے کی جانب ایک قدم ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ جوہری معاہدہ مسائل کے حل کی چابی ہے اورپرامن جوہری توانائی تہران کا حق ہے۔ جنیوا میں ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ ہوگیا ہے جس کے آنے والے دنوں میں مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ پاکستان نے 14 سال قبل جب ایٹمی دھماکے کئے تو یورپی یونین سمیت پوری مغربی دنیا نے اسلامی بم کا واویلا کر دیا تھا اور پھر پاکستان پر آنکھیں بند کرکے پابندیاں عائد کردی گئیں۔ امریکہ کی آنکھوں میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ کھٹکتا رہا۔ کبھی اسے دہشت گردوں کے قبضہ میں جانے کا عندیہ دیا گیا تو کبھی ڈاکٹر اے کیو خان کو بدنام کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے لیکن اب 6 عالمی طاقتوں نے ایران کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اسے یورینیم کی افزودگی کی اجازت دے دی ہے۔ حالانکہ ایران نے امریکی ڈرون کو گرانے سمیت اس کے ہر اقدام کو چیلنج کیا ہے اور اسرائیل تک مار کرنے والا میزائل تیار کرلینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ عمران خان کی بات سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے کہ امریکہ پہلے آنکھیں نکالتا ہے، اگر آدمی آگے سے کھڑا ہو جائے تو بھاگنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ ایرانی قوم امریکہ کے سامنے کھڑی رہی تو امریکہ بھاگ گیا۔ امریکہ جانتا تھا کہ اگر اب بھی مفاہمت نہ کی تو اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔امریکہ ایران تعلقات اب درست ہوگئے ہیں تو پاکستان کو اس کافائدہ اٹھا کر گیس پائپ لائن پر کام بروقت مکمل کرکے توانائی بحران پر قابو پانا چاہئے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز ایران کے دورے پر جا رہے ہیں انہیں گیس پائپ لائن پر بھی وہاں بات کرنی چاہئے تاکہ توانائی بحران پر قابو پایا جاسکے۔ مغربی ممالک ایران کو آئندہ چھ ماہ کے دوران معیشت کی بحالی کیلئے 7 ارب ڈالر دیں گے۔ تو اس کو بنیاد بنا کر ہمیں پائپ لائن کیلئے انوسٹر تیار کرنے چاہئیں۔

About this publication