Trump Administration’s New Military Strategy for Afghanistan

<--

ٹرمپ انتظامیہ کی افغانستان بارے نئی جنگی حکم

ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کی نئی جنگی حکمت عملی مرتب کر لی‘ جس کے تحت افغانستان میں مزید تین ہزار سے زائد فوجی بھیجنے کی تجویز زیر غور ہے۔ اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی موجود ہیں۔ دریں اثناء وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ اسلام آباد کے دورے پر آئے افغان نائب وزیر خارجہ ناصر اندیشہ سے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ملاقات کی۔ ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ اور افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے قیام پر بات چیت کی گئی۔ دونوں رہنما اس نقطے پر ہم خیال تھے کہ دہشت گردی پاکستان، افغانستان اور یہاں کے عوام کی مشترکہ دشمن ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ جسے افغانستان کی جنگی حکمت عملی کا نام دیتی ہے وہ حقیقت میں بھارت کی لائن ہے۔ موجودہ انتظامیہ پر بھارت کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں پر امریکی اور بھارتی رد عمل میں گہری یکسانیت ہوتی ہے۔ امریکی پالیسیوں پر بھارتی اثر و رسوخ کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی ایک معروف حریت پسند جماعت حزب المجاہدین اور اس کے قائد سید صلاح الدین کو امریکہ نے بھارت کے کہنے پر دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ جب تک خطے کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کے بعد حکمت عملی اختیار نہیں کرے گی۔ افغانستان اور پاکستان دہشت گردی سے نجات نہیں پا سکیں گے۔ واحد سپر پاور ہونے کی حیثیت سے دنیا میں امن کا قیام امریکہ کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ مگر اس کی جانبدار پالیسیوں اور غیر حقیقت پسندانہ روش نے آزادی کی جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں اور کشمیریوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ ٹون ٹاور کی تباہی کے انتقام کے جوش میں دنیا کی ایک بڑی آبادی کو دہشت گردی کے عفریت کے حوالے کر دیا۔ ٹون ٹاور کی تباہی سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تھا طیارے ٹکرانے والوں میں کوئی افغان یا پاکستانی نہیں تھا۔ لیکن امریکہ نے افغانستان کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 60 ہزار سے زائد جانی قربانی دی‘ معیشت کو پہنچنے والا نقصان ایک کھرب ڈالر سے زائد ہے۔

امریکہ کی تباہ کن پالیسیوں سے نجات پانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کسی تیسرے ملک کے اثرات سے آزاد ہو کر مشترکہ دشمن دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی مرتب کریں۔ حامد کرزئی دور میں پاکستان کے بارے میں افغانستان کے معاندانہ رویئے سے دہشت گردی کو فروغ ملا۔ صدر اشرف غنی کے ابتدائی روئیے سے توقع تھی کہ شائد اس پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔ لیکن افسوس کہ یہ امید بر نہیں آئی۔ حالانکہ افغانستان اور پاکستان جس مشکل صورتحال سے دو چار ہیں اس کا واحد حل دونوں میں گہرا اشتراک اور ایک دوسرے پر اعتماد میں مضمر ہے۔جہاں تک امریکہ کی افغانستان کے بارے میں نئی جنگی حکمت عملی کا تعلق ہے اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ فوجی طاقت سے نہیں بلکہ طالبان کے مختلف گروپوں سے اور خصوصاً ان سے جو دہشت گردی کے مخالف ہیں بات چیت اور مذاکرات اور انہیں امن عمل میں شریک کرنے سے ہی حل ہو گا۔

About this publication