باایں ہمہ ٹرمپ کے ملک میں مقبولیت کا گراف بڑھتا چلا گیا۔ وجہ؟ اس نے ملکی معیشت کو مضبوط کیا۔ بیروزگاری کو ختم کیا۔ لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کیا۔ ایک عام امریکی شہری یہی چاہتا ہے اسے بین الاقوامی امور سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ امریکہ دنیا کا پولیس مین ہے یا نہیں ہے‘ امریکہ کی دھاک عام دنیا پر بیٹھ گئی ہے یا نہیں بیٹھی۔ یہ اس کی ترجیحات نہیں ہیں۔ وہ ایک آرام دہ زندگی کا خوگر ہے۔ اپنے حال میں مست ہے۔ ٹرمپ نے امیگریشن لاء سخت کرکے اس سے روز گار کے مزید مواقع فراہم کئے ہیں۔ سفید فام لوگوں کو نسلی برتری کا احساس دلایا ہے۔ دیوار نے کافی حد تک ان میکسیکنز کا داخلہ روکا ہے۔ جو کم تنخواہ پر کام کرکے امریکیوں کا حق مارتے تھے۔
اب کچھ ایسا گمان ہوتا ہے کہ ’’وہ یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے گا۔‘‘ اس عالمی وباء نے نہ صرف عام دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ ٹرمپ بہادر کا راج سنگھاسن بھی ڈولنے لگا ہے۔
شکست نے نہ صرف گھورنا شروع کر دیا ہے بلکہ وائٹ ہائوس کے دروازوں پر دستک دینا بھی گو الیکشن میں ابھی چند ماہ باقی ہیں‘ لیکن کوئی تدبیر بر آنے کی صورت نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ وجہ؟ Mishandling and Misreading Situation کہتے ہیں کہ کامیابی کے کئی باب ہوتے ہیں۔ ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ جب پہلا امریکی وباء سے مرا تو ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں کچھ ایسا تاثر دیا کہ امریکہ میں ان ہونی ہو گئی ہے۔ وہ بہت جلد اس وباء پر قابو پا لیں گے۔ ایسا بوجوہ نہیں ہو سکا جس تھوک کے حساب سے امریکی مر رہے ہیں‘ اس نے ساری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک روز میں سارے یورپ میں اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے امریکہ میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں! ٹرمپ اپنی پریس کانفرنس میں بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنا نظر آتا ہے۔ جھنجھلاہٹ میں کبھی پریس سے الجھتا ہے تو کبھی اپنے مشیروں کو مطعون کرتا نظر آتا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ اس کی تضاد بیانی کا یہ عالم ہے کہ ایک دن چین کو موردالزام ٹھہراتا ہے تو دوسرے دن ان کی تردید کر دیتا ہے۔ ایک دفعہ تو یہ تک کہہ دیا کہ چین نے اس کو مروانے کیلئے لیب میں یہ جرثومہ تیار کیا ہے۔ چین نے اس کی فوری تردید کر دی ہے۔ موصوف نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ WHO کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے اس کی فنڈنگ روک دی ہے۔ نتیجتاً اس ادارے کو بیان دینا پڑا کہ ٹرمپ کے الزامات میں کوئی وزن یا صداقت نہیں ہے!
گو جو بائیڈن بھی اتنا آئیڈل امیدوار نہیں ہے‘ لیکن حالات و واقعات نے اسے تاریخی موقع فراہم کر دیا ہے۔ دیکھیں وہ اس سے کیسے اورکس قدر فائدہ اٹھاتا ہے؟ ٹرمپ بظاہر الیکشن ریس ہارتا ہوا نظر آتا ہے‘ لیکن اس کے پاس ایک ٹرمپ کارڈ ہنوز باقی ہے۔ سپریم کورٹ سے رجوع کرنا! اس کا استدلال ہوگا کہ معروضی حالات میں الیکشن منعقد کروانا آئینی طورپر ممکن نہیں ہے۔ ابھی تک Primiries بھی مکمل نہیں ہو پائیں۔ قانونی تقاضے پورے کئے بغیر الیکشن غیرآئینی ہونگے۔ عدالت عظمیٰ میں اس کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن کوئی بھی عدالت اتنا بڑا اقدام نہیں اٹھا سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ خود ہی ایسا نہ کرے۔ امریکہ کے تیس کروڑ عوام اس کی یقینا اجازت نہیں دیں گے۔ اس وقت تک تو نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی صورتحال نظر آتی ہے۔ (ختم شد)
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.