اکستان کی عسکری قیادت کا امریکی فوج کے سربراہ کو دلیرانہ پیغام
پاکستان کی عسکری قیادت نے امریکی ایڈمرل مائیکل مولن کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر بھارت نے کسی بھی طرح کی جارحیت کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔ امریکی جنرل پر یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں افغان بارڈر پر تعینات پاکستانی فوج کو واپس بلالیاجائے گا۔ مسٹر مولن نے صدر آصف زرداری’ وزیراعظم گیلانی’ آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
پاکستان میں جس وقت امریکی جنرل ان ملاقاتوں میں مصروف تھے انہی اوقات میں امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس بھارت کو یہ سمجھانے میں مصروف تھیں کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانا خطرناک ہوگا۔ تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے اڈے ختم کرنے چاہئیں۔کنڈولیزا رائس کے ساتھ ملاقات میں بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکھرجی نے ایک بار پھر اس الزام کو دہرایا کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے۔ سب سے پہلے ہم امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیکل مولن کی پاکستان میں سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ایڈمرل مائیکل مولن وہی مشن لے کر پاکستان آئے تھے جس مشن پر کنڈولیزا رائس بھارت گئیں۔ بھارتی دھمکیوں کے پیش نظر امریکی انتظامیہ کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر پاکستان کے خلاف بھارت نے جارحیت کی تو اس کا نقصان پاکستان کے بجائے امریکہ کو ہوگا جو اس وقت افغانستان اور فاٹا کے درمیان بری طرح الجھ چکا ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی اسی ہزار سے زائد فوج تعینات ہے اور اگر یہ فوج وہاں سے نکل آئے تو دونوں اطراف کے طالبان امریکی مفادات کو شدید نقصان پہنچائیں گے۔ اسی ممکنہ خطرے سے بچنے کے لئے امریکہ کی یہ بھرپور کوشش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہ آئے اور کشیدگی ختم ہو جائے یہی وہ اہم نکتہ تھا جس پر کھل کر بات کرنے کے بجائے ایڈمرل مائیکل مولن نے خود کو ایک صلح جو جرنیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے پاکستان کی فوجی قیادت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات خراب نہ کرے۔ اس کے جواب میں پاکستان کی عسکری قیادت نے جو موقف اختیار کیا اس نے امریکی فوج کے سربراہ کی اس پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا کہ اگر پاکستان نے واقعی ڈیورنڈ لائن سے اپنی فوج ہٹالی تو امریکی مفادات کا کیا بنے گا؟
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے مائیکل مولن پر کھلے لفظوں میں یہ واضح کرکے قوم کے جذبات کی درست ترجمانی کی ہے کہ اگر بھارت نے کسی قسم کی جارحیت کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
بھارت کی الزام تراشی اور دھمکی آمیز روئیے کو قومی اور عسکری قیادت کس نظر سے دیکھتی ہے اس کا ہمیں کچھ کچھ اندازہ تو ہے لیکن دو باتیں ہم عسکری قیادت کے نوٹس میں لانا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اول یہ کہ پاکستانی قوم اس وقت اپنے تمام اختلافات کو ایک طرف رکھ کر صدق دل کے ساتھ فوج اور حکومت کے ساتھ ہے۔ دوم یہ کہ پاکستانی عوام جنگ سے ذرا بھی خوفزدہ نہیں ہیں۔ پاکستانی اتنے باشعور ضرور ہوچکے ہیں کہ وہ جنگ کی تباہ کاری کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی بے خوفی لائق تحسین ہے۔ آئی ایس آئی اور پھر اس کے بعد آئی ایس آئی کے نمائندے کو بھارت نہ بھیجنے کے فیصلے کو عوام کی طرف سے جتنی پذیرائی ملی اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آگئی ہے کہ پاکستانیوں میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور وہ بھارت کے طلب کئے جانے پر ایک چپڑاسی کو بھی بھارت بھیجنے پر تیار نہیں ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہر پاکستانی پر یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ بھارت آج بھی ہمارا اتنا ہی دشمن ہے جتنا 1965ء اور 1971ء کے زمانے میں تھا۔ پاکستان کے حوالے سے اس کی نیت میں زبردست فتور ہے اور یہ بات پاکستانی قیادت کو بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ اس شعوری ادراک کے بعد بھی اگر ہماری لیڈر شپ بھارت کے ساتھ دوستی کی بات کرے تو یہ قوم کے جذبات کی توہین ہوگی۔
قوم اپنی لیڈر شپ کو نڈر اور بیباک دیکھنا چاہتی ہے ۔ ان دعوئوں کو عملی روپ میں دیکھنا چاہتی ہے جو ہمارے سیاستدان الیکشن مہم کے دوران کرتے ہیں۔ ہر انتخابی امیدوار کے انتخابی بینروں اور اشتہاروں میں ”نڈر اور بیباک” قیادت کے الفاظ ضرور استعمال کئے جاتے ہیں لیکن جب ان وعدوں کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کا وقت آتا ہے تو ہمارے اکثر سیاستدان عوام کو مایوس کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارتی دھمکیوں پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے ہر اشتعال انگیز بیان کا منہ توڑ جواب دیا جائے اور اس بات کو طے سمجھا جائے کہ اول تو بھارت ہمارے خلاف جارحیت کی ہمت ہی نہیں کرے گا اور اگر اس نے ایسی کوئی حماقت کی تو اسے چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔ وطن کی ناموس پر کٹ مرنے کا جذبہ ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے اور وہ بھارتیوں کی طرح جنگ کو نفع نقصان کے تناظر میں نہیں دیکھتے۔ پاکستان آرمی اور پاکستانی قیادت اپنے حوصلے بلندرکھیں۔ کٹھن ترین لمحات میں بھی یہ قوم انہیں مایوس نہیں کرے گی۔
I have to say this is disappointing. Ultimately Pakistan has nothing to gain by aggression with India and everything to lose. What is more, by damning any attempt at reconciliation they will only sustain the current atmosphere of mutually damaging hostility.
Despite the author’s talk of willingness to die, I am all but certain it is nothing more then baseless bravado. Should their cities be reduced to glass, the people of Pakistan would have overwhelming regrets.
It would seem that the wisest course of action for any regime in Pakistan to scrupulously not follow this fellow’s advice. That said, they should probably make it one of their top priorities not to be vilified in their society for doing so while they are at it. If that means claiming the Indians caved to their might or some similar story, then so be it. Pakistan wouldn’t be the first country that has an ego. But for the love of God, your own people, and reason… Let the hostility end.
They’ll lose nothing they have now or surrender anything they could ever hope to obtain.