America’s DiscriminatoryTreatment of Muslims

<--

امریکی حکام کا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک

جمعہ کے روز امریکی مسافرجہاز میں موجود نو مسلمان مسافروں کو مشکوک باتیں کرنے پر طیارے سے باہر نکال دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ریگن سے اورلینڈ جانے والی پرواز سے نو مسلمان مسافروں کو اس وقت باہر نکال دیا گیا جب انہوں نے جہاز میں بیٹھ کر اس موضوع پر تبادلہ خیال شروع کیا کہ اگر جہازمیں بم رکھ دیا جائے تو بچنے کے لئے کونسی جگہ محفوظ ہوگی۔یہ سن کردیگر مسافروں نے عملہ سے شکایت کی تو انہیں نیچے اتار دیا گیا باقاعدہ تفتیش کی گئی اور ایک آدمی کو سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی جبکہ بقیہ آٹھ لوگوں کو بے گناہ قرار دے دیا گیا۔ ایف بی آئی نے مسافروں کی اس تذلیل کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا اور پھر انہیں ایک دوسری پرواز سے منزل مقصود کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

مذکورہ واقعہ امریکی اداروں کے عمومی رویے اور امریکی انتظامیہ کے خوف و ہراس اور مسلمان دشمن جذبات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ امریکی افسران و انتظامیہ جہاں مسلمانوں کو اس قدر شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہاں ایسے واقعات کے پس پردہ عوام کی عمومی نفسیات میں مسلمانوں کے بارے میں خوف و ہراس کے جذبات کو فروغ دینا بھی مقصود ہوتا ہے۔ اس قسم کے اقدامات سے پوری دنیا میں ایک پیغام جاتا ہے کہ امریکی اور اہل یورپ مسلمانوں کے نام نہاد دہشت گردی سے کس قدر خائف اور غیر محفو ظ ہیں۔

جیسا کہ بعد از تحقیق یہ ثابت بھی ہوا کہ مسلمان مسافر بالکل بے گناہ تھے لیکن صرف مسلمان ہونے کی بنا پر ان سے یہ امتیازی سلوک کیا گیا۔ امریکی حکام کا یہ رویہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ غیر مساویانہ سلوک کیوں کیا جاتا ہے یہ تو محض چند مسافروں کو پریشان کرنے والا واقعہ ہے لیکن پوری دنیا کا ضمیر بھی آج اس حقیقت پر خاموش ہے کہ امریکہ اور اتحادی فوجوںنے ایک مسلم ریاست عراق کو فتح کیا اور وہاں اب تک لاکھوں انسانوں کا قتل عام ہوچکا ہے اور آج بھی امریکہ اور اتحادی وہاں قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ تاریخ کے اس بدترین ظلم کے بعد امریکی صدر بش دنیا کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے عراق پر حملہ غلط فہمی کی بنیاد پر کیا تھا۔ سی آئی اے نے انہیں غلط اطلاعات فراہم کیں تھیں کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں۔ لاکھوں انسانوں کو قتل کرنے کے بعد صدر بش تاریخ کے اس گھنائوے جرم پر شرمندہ نہیں ہیں بلکہ اس مظلوم قوم کے ایک صحافی نے جب بش کی طرف جوتا پھینک دیا تو اس جرم میں وہ غیرت مند صحافی آج بھی پس زندان ہے۔ عراق کے بعد اب غزہ میں مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کے بجائے کونڈولیزا رائس کہتی ہے کہ حماس اسرائیل کے مظالم کے جواب میں کسی ردعمل کا اظہار نہ کرے اور یقین دہانی کرائے کہ اسرائیل پر راکٹ نہیں داغے جائیں گے۔

اقوام متحدہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آج وہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش ہے لیکن اس حقیقت کو بھی یاد رکھا جائے کہ ظلم کی کوئی حد یں نہیں ہوتیں اس لئے اقوام عالم اور مسلمان متحد ہوکر امریکہ و اتحادیوں کے ظالمانہ اور غیر انسانی اقدامات کی نہ صرف مذمت کریں بلکہ اس کے خلاف عملی اقدامات بھی اٹھائیں۔

About this publication