Extending the War In Afghanistan

<--

jافغانستان میں جنگ کو طول دینے کی تیاریا

9/11 کو اس حوالے سے تاریخ میں یاد رکھ جائے گا کہ اس دن دنیا کے امن و امان کو آگ کے شعلوں میں جھونک دیا گیا تھا۔ اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان شعلوں کی شدت میں آئے دن تیزی آتی جارہی ہے۔ اور ستم یہ ہے کہ افغان عوام کو اس ضمن میں ناکردہ گناہ کی سزا دی جارہی ہے اور اس بدنصیب ملک میں بسنے والے مفلوک الحال عوام کے سروں پر کمال بے وردی کے ساتھ بم اور گولے برسائے جارہے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں ہمیں چارسو سرکشتوں کے پشتے دکھائی جارہے ہیں اور اس کے کوچہ و بازار’ انسانی خون کی ارزانی کا دلدوز منظر پیش کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے ” مہذب ممالک” کا یہ ” حسن سلوک” رہا ہے کہ انسان بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ ” بوئے خون آتی ہے اس قسم کے انسانوں سے”۔

یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ 9/11 کو امریکہ کا پورا سیکورٹی سسٹم تعطل کا شکار ہو کر رہ گیا تھا۔ مگر اس سسٹم کے ناکارہ ہونے کی بنا پر کسی امریکی اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ اس مجرمانہ چشم پوشی سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ نائن الیون (9/11) کے حملوں میں خود امریکی ایجنسیاں ملوث تھیں اور یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔ اس خونی ڈرامے کا اصل مقصد یہ تھا کہ کیسپین کے تیل تک پہنچنے کے لئے افغانستان پر فوج کشی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے افغانستان پر چڑھائی کی گئی اور آج حالت یہ ہے کہ امریکہ سمیت چالیس مغربی ملکوں کی فوجیں گزشتہ سات برسوں سے اس مفلوک الحال ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہیں۔ مگر سخت جان افغان قوم کی عوامی مزاحمت نے ان جارح قوتوں کو دن کے وقت تارے دکھا دئیے ہیں۔ تاہم ” رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے” کے مصداق ‘ یہ غیر ملکی جارح قوتیں ‘ تباہی و بربادی کی نت نئی داستانیں ‘ افغانستان میں رقم کر رہی ہیں اور ستم یہ ہے کہ مسلم دنیا کو از سر نو دوستی کا پیغام دینے والی امریکہ کی نئی حکومت’ افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کی باتیں کر رہی ہے۔ اس ضمن میں جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ‘ ہم بڑے دکھ کے ساتھ ‘ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی چھیڑی ہوئی جنگ میں ہم نے کھویا بہت کچھ ہے اور پایا بہت کم ہے۔ اب ہماری بے بسی کا عالم یہ ہے کہ وطن عزیز ‘ امریکہ کے جاسوس طیاروں کے حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اور نئے امریکی صدر کی جانب سے احکامات جاری کئے جارہے ہیں کہ یہ ڈرون حملے آگے چل کر بھی جاری رہیں گے ۔ اپنے دیرینہ حلیف اور اتحادی پاکستان کے ساتھ یہ ” حسن سلوک” دیکھ کر انسان بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ ” خوشی سے مر نہ جاتے’ اگر اعتبار ہوتا ” امریکہ کے ساتھ ہمارے ” بے ساختہ” تعاون کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب تک ہماری فوج کے ہزاروں سپاہی ‘ اس پرائی آگ کی نذر ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود ‘ ہمارے حکمران ان امریکی فضائی حملوں پے بے بسی کے ساتھ اظہار ناراضگی سے زیادہ کچھ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں ‘ آنے والے دنوں میں پاکستان کو جن خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا’ ان کی چند جھلکیاں ‘ امریکہ کے وزیر دفاع ‘ رابرٹ گیٹس نے ہمیں د کھائی ہیں۔ امریکی کانگریس کی مسلح افواج کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو ایک طویل اور مشکل جنگ کا سامنا ہے۔ یہ جنگ کتنی طویل ہو گی ‘ اس سوال کا جواب صدر اوبامہ کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کیلئے خصوصی ایلچی مقرر کئے جانے و الے سفارت کار ‘ رچرڈ ہالبروک ‘ صدارتی انتخابات سے پہلے ” فارن آفیسرز” میٹنگز میں یوں بیان کر چکے ہیں’

” اپنے آٹھویں سال میں داخل ہونے والی اس جنگ کے بارے میں امریکیوں کو سچ دینا چاہیے کہ یہ جنگ طویل مدت تک جاری رہے گی۔ امریکہ نے اب تک جو طویل جنگ لڑی ہے وہ 14 سال تک جاری رہنے والی ویت نام کی جنگ تھی۔ مگر یہ جنگ اس سے بھی زیادہ مدت تک جاری رہے گی۔ اس تجزیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ‘ امریکی تجزیہ کار ‘ جیکس ریمانڈو(JAKSON Raimondo) لکھتے ہیں کہ ” اگرچہ ہال بروک درست کہہ رہے ہیں کہ ہم ایک ایسی بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں جو عراق کی جنگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید ہو گی مگر اس جنگ کی طوالت کے بارے میں ان کی بات درست نہیں ہو سکتی کیونکہ جس جنگ کی وہ بات کر رہے ہیں وہ بے لگام تشدد اور وحشت کا آخری دور ہو گا۔ اور اس جنگ کے نتائج ‘ مکمل تباہی اورت بربادی اور ہمارے تیزی سے غلط ثابت ہوتے ہوئے سامراجی دعوئوں کی مکمل ناکامی کی شکل میں برآمد ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے کے عرصے میں یہ جنگ اپنے منطقی اختتام کو پہنچے گی اور اس کے اختتام پر امریکی قوم اپنے زخم چاٹ رہی ہو گی۔ اور اسے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے گی ”۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی حکمران ‘ افغانستان کے خلاف ایسے جنگی جنون کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم شروع میں یہ اشارہ کر چکے ہیں کہ افغانستان پر امریکی یلغار ‘ اصل مقصد ‘ کیپسئن کے علاقہ میں موجود تیل اور گیس کے وسیع ذخائر تک پہنچنا ہے۔ اور سات سا ل کی ناکام جنگ کے بعد بھی امریکی قیادت اور امریکی سرمایہ دار’اس بے تحاشہ دولت کے حصول کے لئے بے قرار دکھائی دے رہے ہیں اور وہ ہر صورت اپنی کامیابی کے لئے اپنے مادی وسائل ‘ جنگ کی اس بھٹی میں جھونکتے جارہے ہیں اور ان کی اس حرص کے نتیجے میں ‘ پوری دنیا ‘ ہر روز زیادہ غیر محفوظ ہوتی جارہی ہے۔ اس تناظر میں اب اقوام عالم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے ارباب اختیار کو تباہی کی اس راہ پر آگے بڑھنے سے روکنے کی پوری کوشش کریں اور 9/11 کے حملوں کی از سر نو تحقیق کرائیں اور یوں اس حادثے کے اصل اسباب کا پتہ لگائیں۔ ایسا کرنے کے بعد افغانستان کے خلاف’ جارحیت کی اصل حیققت دنیا پر پوری طرح واضح ہو جائے گی۔ اور اس کے نتیجے میں امریکہ کے لئے افغانستان میں جنگ کا جاری رکھنا مشکل ہو جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری انسانی برادری اس مطالبے کا ساتھ دے۔ اور امریکہ کے جنگی جنون کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے ‘ دنیا کو مزید تباہی سے بچانا وقت کی اہم ترین پکار ہے۔

About this publication