Fake Dollars

<--

صہیونیوں نے اپنی مکاری ‘ جعلسازی اور چالبازی سے پوری دنیا کو کیسے بیوقوف بنا رکھا ہے اسے سمجھنے کیلئے یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے ان کی سرگرمیوں کا مرکز امریکہ بن چکا ہے جبکہ اس سے پہلے ان کی جنت برطانیہ بنا رہا جو اب بھی باقی اور یورپ کی طرح ان کے تابع ہے۔ برطانیہ کو انہوں نے بینک آف انگلینڈ کے قیام سے اقتصادی غلام بنایا جبکہ امریکہ کو تو اس کے قیام کے روز اول سے ہی صیہونیوں نے اپنے چنگل میں پھنسالیا اور اس کے تمام شعبوں بشمول تعلیم ‘ تجارت ‘ بینکنگ ‘ میڈیا تھیٹر (جسے آج کل شوبز کہا جاتا ہے) پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ آج صیہونی تعداد میں انتہائی کم لیکن منصوبہ بندی اور وسائل میں برتر ہونے کے سبب نہ صرف امریکہ و یورپ کو اپنی مرضی کے مطابق ہانک رہے ہیں بلکہ ان کے ذریعے اور بعض طفیلی اور ذیلی اداروں مثلاً یو این او ‘ آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بینک ‘ ڈبلیو ٹی او کے بل بوتے پر پوری انسانیت کا نہ صرف خون نچوڑ رہے ہیں بلکہ انسانیت کا بچا کھچا خون اپنی ہی پیدا کردہ جنگوں کے ذریعے بے دریغ بہا کر اربوں ڈالر کما رہے ہیں کیونکہ ان جنگوں سے ہی ان کی اسلحہ سازی کی صنعت چلتی ہے۔

آج کا موضوع صیہونیوں کی مالیاتی جعلسازی سے متعلق ہے اور اسی کے چند پہلوئوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔1971 ء میں امریکہ نے کرنسی چھاپنے کے مسلمہ اصول (یعنی قومی خزانے میں جس قدر سونا موجود ہو اتنی ہی مالیت کے کرنسی نوٹ یا کاغذی کرنسی چھاپنا چاہیے) سے مکمل انحراف کرتے ہوئے اس سے کہیں زیادہ کاغذ لے کر ڈالر چھاپے اور خرچ کیے۔ اس طرح اربوں کی مالیت میں چھپنے والے یہ کاغذی ڈالر عملی طور پر جعلی ڈالر تھے یوں پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر (اربوں ڈالر جن کی حیثیت محض کاغذ کے پرزے کی تھی استعمال کرتے ہوئے) عالمی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ جب فرانس کو اس جعلسازی کا علم ہوا تو اس نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کی ڈ الر ہولڈنگز کو سونے میں تبدیل کرے۔ لیکن امریکہ نے اس کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا کیونکہ اس کے پاس اتنا سونا نہیں تھا جتنے وہ کاغذی ڈالر چھاپ کر د نیا بھر میں خرچ کرچکا تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ کی جگہ کوئی تیسری دنیا کا ملک ہوتا تو چند لمحوں میں اسے دیوالیہ قرار دے دیا جاتا۔ اپنے اس عظیم مالیاتی ڈاکے اور تاریخ کے بدترین مالیاتی سیکنڈل پر پردہ ڈالنے کیلئے امریکی بھاگے بھاگے سعودی عرب پہنچے اور وہاں کے حکمرانوں سے ایک ڈیل کے ذریعے یہ طے پایا کہ سعودی عرب (اور اوپیک) اپنے تیل کی برآمدات کو ڈالر سے منسلک کر دیں۔ اس دن کے بعد جس ملک نے بھی اوپیک سے تیل خریدنا ہو پہلے ڈالروں کا بندوبست کرتا ہے باالفاظ دیگر وہ تیل ان ڈالروں کے بدلے خریدتے چلے آرہے ہیں جو امریکی محض پرنٹنگ مشین سے چھاپنے کی زحمت کر رہے ہیں یعنی عملی طور پر امریکیوں نے گزشتہ چار دہائیوں سے جتنا تیل خریدا ہے وہ بالکل مفت خریدا ہے جس کا سارا بوجھ باقی دنیا کے ممالک پر پڑا ہے جنہوں نے مسلسل چالیس سال امریکی ”کاغذی ڈالر” کے عوض تیل خریدا اور امریکہ کو کھربوں ڈالر کے اس ڈاکے میں رضاکارانہ بلکہ احمقانہ انداز میں مدد دی۔ تاہم صدام حسین نے امریکیوں اور صہیونیوں کی اس لوٹ مار کو بھانپتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور عراقی تیل یورو کے بدلے فروخت کرنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے یہ امریکی موج میلے کو ختم کرنے کی ایک جسارت تھی جسے صہیونی قطعاً برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ تباہ کن بھاری ہتھیاروں کی ایک جعلی داستان گھڑی گئی اور نہ صرف صدام حسین کو قتل کر دیا گیا بلکہ عراق کے تیل پر بھی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ براہ راست قبضہ جمالیا گیا اب وہاں ایک کٹھ پتلی یعنی عراق کا کرزئی حکمران ہے باقی آپ سب جانتے ہیں۔

تاہم وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے بھی امریکی ڈالر پر لعنت بھیجی اور اپنے ملک کا تیل ڈالر کے علاوہ دنیا کی باقی کرنسیوں میں فروخت کرنا شروع کر دیا جس کی پاداش میں اس پر کئی قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں جن کا ”کھرا” سی آئی اے تک جاتا ہے۔ ایرانی صدر احمدی نژاد بھی اسی تاک میں تھے کہ شیطان بزرگ کیکمر پر زوردار لات ماری جائے انہوں نے بھی ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں میں تیل فروخت کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا اور امریکی نخوت و تکبر کے بت کو پاش پاش کر دیا۔

اب یہ مکروہ “SHELL GAME” اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اور اس کا منطقی انجام اب اتنا بعید نہیں کیونکہ دنیا کی باشعور قومیں صہیونیوں کی اس عالمی لوٹ کھسوٹ ‘ غنڈہ گردی اور مالیاتی بدمعاشی سے آگاہ ہوتی جارہی ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ اوپیک کے ممالک بھی اب مجبوراً تیل کی فروخت کو ڈالر سے منسلک کرنے کا غلامانہ رویہ بادل ناخواستہ ہی سہی ترک کر یں گے۔ اس حوالے سے امریکیوں کیلئے بدترین خبر یہ ہے کہ ان کے کاغذی اور جعلی ڈالروں کی قلعی کھل جانے کے بعد وہ خود بھی مجبور ہوں گے کہ یورو یا دنیا کی کسی اور بہتر کرنسی کے ذریعے تیل خریدیں ۔ یہی امریکیوں کیلئے ایک ڈرائونا خواب ہے جس میں انہیں اپنی معیشت مکمل طور پر ڈوبتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب ان جعلی ڈالروں کی حقیقت پوری دنیا پر منکشف ہو جائے گی تو امریکہ کو دنیا میں پھیلی ہوئی اپنی فوجوں کے بھاری اخراجات اٹھانے کیلئے چاروں طرف اندھیرا ہی ا ندھیرا نظر آئے گا۔ امریکہ کے پاس اس کا کیا حل ہے یہ امریکی ”بقراطوں” کو معلوم نہیں البتہ ان کے یہودی (صہیونی) آقا ان سے دنیا کی خطرناک ترین یعنی آخری جنگ عظیم کی سفاکانہ حماقت ضرور کرائیں گے جس کے ذریعے امریکی ایٹمی اسلحہ استعمال کرتے ہوئے خاکم بدہن پاکستان سمیت عالم اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجانا شامل ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے دیرینہ خواب یعنی گریٹر اسرائیل کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے اور اسرائیل کو دنیا کا دارالحکومت بناکر پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب ہے لیکن پردہ غیب میں حاکم الحاکمین نے کیا نقشہ ترتیب دے رکھا ہے کسی کے علم میں نہیں۔ ہوتا ہے وہی جو اس نے طے کر رکھا ہے۔

کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

About this publication