The Use of Term 'Afpak' in American Circles

<--

امریکہ میں ”ایف پاک” اصطلاح کا استعمال

کافی مدت سے ہمیں امریکی حلقوں میں ایک اصطلاح ”ایف پاک” کااستعمال اکثر ملتا ہے۔ اس کا مطلب ہے افغانستان و پاکستان جبکہ افغانستان اور پاکستان دو الگ الگ ملک ہیں۔ د ونوں کا الگ الگ وجود ہے لیکن جس طرح امریکی حلقے ”ایف پاک” کا استعمال کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ امریکی ‘ افغانستان اور پاکستان کو ایک ہی ملک اور ایک ہی سرزمین سمجھنا شروع ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ہم امریکیوں کے ہاں ”ایف پاک” اصطلاح کے استعمال پر احتجاج کرتے ہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ افغانستان اور پاکستانی بارڈرز کے دونوں اطراف میں افغان قبائل آباد ہیں۔ دونوں اطراف میں رشتہ داریاں ہیں اور یہ افغان رشتہ دار اکثر بارڈر عبور کرتے رہتے ہیں۔ یہ روایت تو ماضی بعید سے موجود ہے۔ پاکستانی سرزمین پر موجود جو افغان قبائل ہیں ممکن ہے وہ افغانستان جاتے ہوں اور اپنے رشتہ داروں کی مدد کرتے ہوں۔ رچرڈ ہالبروک افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے امریکی نمائندے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی زیر غور ہے لیکن ہمیں تیار رہنا چاہئے کہ اس امریکی پالیسی سے پاکستان کی سردردی میں نیا اضافہ ہو جائے گا۔ امریکہ پاکستان سے تقاضا کرے گا کہ وہ اگر ڈرون حملوں کا خاتمہ چاہتا ہے تو فاٹا اور کوئٹہ کے ارد گرد موجود افغان بستیوں میں کارروائیاں کرے۔ امریکہ کی دیکھا دیکھی برطانیہ اور جرمنی نے بھی افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے اپنے نمائندے مقرر کر دیئے ہیں۔ امریکہ میں آجکل لچکدار رویئے رکھنے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت میں آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں ۔ حال ہی میں امریکی صدر اوبامہ نے ایران کو شاخ زیتون پیش کی ہے جبکہ ایران پاکستانی بارڈر کے ساتھ جند اللہ نامی تحریک کے حوالے سے اکثر شکایت کرتا ہے۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ کوئی شکایت نہیں تو پھر جند اللہ کو کون سپورٹ کرتا ہے؟ انگلیاں امریکہ کی طرف اٹھتی رہتی ہیں کہ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کے حوالے سے امریکہ کا اپنا ایجنڈا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے نمائندے جان سولیکی کو بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ نے اغوا کرلیا تھا۔ بلوچستان لبریشن آرمی تو پرانی ہے مگر یہ فرنٹ بالکل نیا ہے۔ جان سولیکی کے اغوا کے اعتراف سے اس فرنٹ کے وجود کا اظہار ہوا ہے۔ حال ہی میں سابق صدر پرویز مشرف بھارت گئے تھے اور وہاں انہوں نے فوج اور آئی ایس آئی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کو معلوم کرنا چاہئے کہ جلال آباد اور قندھار میں بھارتی قونصل خانے کیا کرتے ہیں اور ”را” ان قونصل خانوں کے ذریعے کیا کچھ کر رہی ہے۔ بھارت میں سابق صدر کو کسی نے اس حوالے سے مثبت جواب نہیں دیا۔

افغانستان کی سرزمین پر را ‘ موساد اور سی آئی اے کا جو وجود ہے اور آپس میں گٹھ جوڑ ہے اس کی روشنی میں بلوچستان میں بغاوتیں اور بدامنی قابل فہم ہے۔ لیکن اس کا نقصان مغربی اقوام کو بھی سمجھ لینا چاہئے۔ افغانستان کی سرزمین سے ملنے والی تربیت اور مدد کے ذریعے ہی بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ جیسے ذہن سولیکی کو اغوا کرتے ہیں۔ حالانکہ حکومت اور فوج کا سولیکی کے اغوا سے کوئی تعلق نہیں مگر دبائو اور مطالبات حکومت سے کیے جاتے ہیں۔ حکومت اور فوج سولیکی کی برآمدگی کے لئے کاررروائیاں بھی اکثر کر رہی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت کی را ‘ اسرائیل کی موساد اور امریکہ کی سی آئی اے پر اسرار کھیل کیوں کھیل رہی ہیں؟ پاکستان اور ایران کو بلوچستان کے حوالے سے کیوں بہت ہی پراسرار کھیل کے سپرد کیا گیا ہے؟ ہمارا یہ سوال صدر اوبامہ کے اس امریکہ سے ہے جو افغانستان کے حوالے سے نئی پالیسی بنانے میں مصروف ہیں جبکہ ان کے حکمت کار ‘ایف پاک” کی اصلاح سے افغانستان اور پاکستان کو ایک ہی ملک ‘ ایک ہی علاقہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں اور ایسا کرکے وہ کتنا غلط کر رہے ہیں۔

About this publication