The New American Strategy for Afghanistan and Pakistan

<--

افغانستان اور پاکستان کیلئے نئی امریکی حکمت عملی

امریکی صدر باراک اوبامہ کی افغانستان اور پاکستان سے متعلق نئ

الیسی میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہی باتیں ہیں جو امریکہ کے مختلف عہدے دار کرتے رہے ہیں ‘ البتہ جو دھمکی آمیز اور تحکمانہ لہجہ استعمال کیا گیا ہے وہ امریکیوں کیلئے ہے تاکہ ان کا مورال بلند رہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ کہنا کہ القائدہ کے ٹھکانوں کو ختم کر دیں گے ‘ ان کی خام خیالی ہے۔چند دن قبل اوبامہ نے افغانستان سے نکلنے (Exit Strategy) کا اعلان کر کے حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں شکست ہو چکی ہے اور یہ نئی حکمت عملی در اصل امریکہ کے شکست خوردہ ذہن کی بدحواسی ظاہرکرتی ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی ‘ افغانستان میں طالبان کے مقابل اپنی جنگ ہار چکے ہیں او ر اب ان کی خواہش ہے کہ پاکستان یہ جنگ جیت کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جھولی میں ڈال دے جو ممکن نہیں کیونکہ پاکستان خود اپنی تمام تر عسکری قوت استعمال کرنے کے باوجود وزیرستان ‘ باجوڑ ‘ دیر اور سوات میں ناکام رہا ہے۔ فوج کو اپنی ہی سر زمین پر ناکامی کے بعد طالبان جنگجوئوں سے معاہدے کرنا پڑے۔امریکہ چاہتا ہے کہ وہ معاہدے توڑ دیئے جائیں اور صدر آصف علی زرداری ‘ جنرل پرویز مشرف کی طرح ایک بار پھران قبائلی علاقوں میں لشکر کشی شروع کر دیں۔ اگر حکومت پاکستان نے طالبان کے ساتھ کئے گئے امن معاہدے کو امریکہ کے دبائو پرتوڑ ڈالا تو یہ خود اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ ہم پرویز مشرف کے دور میں ان علاقوں پر لشکر کشی کے نتائج دیکھ چکے ہیں جس میں سر فہرست یہ حقیقت ہے کہ ان علاقوں میںخود حکومت کی اپنی ‘رٹ ‘ یا عملداری ختم ہو گئی اور ملک و قوم کا بے پناہ نقصان ہوا۔ اب حکومت اور صدر آصف علی زرداری کی فہم و فراست کے امتحان کا وقت آن پہنچا ہے جس میں انہیں یہ فیصلہ کرناپڑے گا کہ آیا وہ امریکہ کے سامنے پرویز مشرف کی طرح سر جھکا کر اپنے ہی لوگوں کے قتل عام کا حکم دیں گے یا پاکستان اور اس کے عوام کو بچانے کیلئے افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجوں کی واپسی کے مطالبات کی حمایت کریں گے۔ یہ امر طے شدہ حقیقت ہے کہ جب تک امریکی اور یورپی افواج افغانستان سے نکل نہیں جاتیں خطے میں امن کی بحالی کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

باراک اوبامہ کا دھمکی آمیز لہجہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امریکہ شدید خجالت میں اپنی تمام تر ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے لہذا اب پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملوں میں اضافے کے خدشات ہیں بلکہ گذشتہ برس کی طرح افغانستان میں متعین امریکی فوج پاکستانی سر زمین کی جانب پیش قدمی بھی کر سکتی ہے۔ صدر اوبامہ نے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کا قبائیلی علاقہ دنیا کا خطرناک ترین علاقہ ہے لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں امریکہ نے طالبان کے ہمراہ مورچہ زن ہو کر سوویت یونین کے خلاف جنگ جیتی اور اب اسی علاقے سے افغانستان سمیت پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی معدنی دولت پر قبضے کیلئے اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش میں ہے اور اسے عہد جدید کی سب سے بھر پور مزاحمت کا سامنا ہے۔ جہاں آٹھ برسوں میں جدید ترین اور مہلک ترین ہتھیاروں سمیت اس خطے پر قابض ہونے کی ہر ممکن تدابیر کر ڈالی گئیں مگر ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ یہ حقیقت دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گی کہ ناکافی وسائل اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود’ ایمان کے جذبے سے سرشار چند ہزار مجاہدوں نے وہ کارنامہ کر دکھایا ہے جو شاید دنیا کی لاکھوں پر مبنی کسی بھی ملک کی فوج انجام نہیں دے سکتی تھی۔ یہی سبق پاک فوج کو بھی سیکھنا پڑا اور آخر کار انہیں سوات میں امن کی بحالی کیلئے مولوی صوفی محمد سے معاہدہ کرنا پڑا۔ اگر یہ معاہدہ برقرار نہ رکھا جا سکا تو یہ ملک و قوم کی بڑی بد نصیبی ہوگی اور ہمیں مزید مصائب کاسامنا کرنا پڑے گا۔

اس خطے میں اپنے مکروہ عزائم کیلئے برسرپیکار بڑی طاقتیں یہ نہ بھولیں کہ ماضی قریب میں افغانستان میں سوویٹ یونین کا کیا حشر ہو ا۔ ایمان کی قوت سے سرشار مٹھی بھر مجاہدین نے اس کا غرور خاک میں ملا دیا اور اب امریکہ کا حشر بھی افغانستان میں دیدنی ہو گا ۔ اسلیئے پاکستان کے حکمران اپنے اہل ایمان عوام کی امنگوں کے برخلاف اسلام دشمن قوتوں پر انحصار کرنے کی سنگین غلطی کا ارتکاب نہ کریں۔یہ یاد رکھیں کہ پچھلے تیس سالوں میں دنیائے اسلام کی مدافعتی قوت کیلئے امدادی کیمپ (support base) کا کام یہی علاقہ سر انجام دیتا رہا ہے اور اسی قوت کے ہاتھوں سوویٹ یونین کو افغانستان میں ‘ امریکہ کو عراق میں ‘ اسرائیل کو لبنان و غزہ میں اور امریکہ ا ور ان کے یورپی اتحادیوں کو افغانستان میں شکست ہو چکی ہے۔ خود ہماری پاکستانی فوج سوات ‘ باجوڑ اور وزیرستان میں اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دنیائے اسلام کی مدافعتی قوت کی یہ کامیابیاں ایک معجزہ ہیں اور اسی قوت کے بل بوتے پر نیا عالمی نظام ترتیب پا رہا ہے۔ کیا اس حقیقت کو نظر انداز کر کے امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں اپنے جنگی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں؟

امریکہ کو خدشہ ہے کہ اگر وہ افغانستان سے نکل جائے گا تو وہاں طالبان کی حکومت قائم ہوجائے گی اور پاکستان اور ملحقہ علاقے انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔ ان کو سوچنا چاہیئے کہ ١٩٩٠ء میں جب امریکہ افغانستان اور پاکستان کو بے یارومددگارچھوڑ کر عراق پر حملہ آور ہوا تھا تو کیا افغانستان اور پاکستان میں انتشار پھیلا؟ اس کے بر عکس افغانستان میں طالبان نے مثالی امن و امان قائم کیا اور پاکستان میں جمہوری نظام مضبوط ہوا۔ اسیلئے آج بھی قابض فوجیں اگر افغانستان سے نکل جائیں تو پورے علاقے میں امن کی فضا پیدا ہوگی جس طرح ٢٠٠٧ء میں جب امریکہ نے عراق سے نکل جانے کا اعلان کیا تو وہاں امن کی فضا قائم ہوئی’ اسلئے اس نئی پالیسی میں طاقت کا استعمال ‘ پاکستان پر دبائو اور القائدہ کا خاتمہ بے معنی اور لاحاصل سوچ ہے جس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

زمینی حقائق اور تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ امریکہ کی افغانستان پالیسی کو نیا رخ دیا جائے اور افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جائے اور ضروری ہے کہ اس مشاورت میں روس ‘ چین ‘ ایران ‘ بھارت اور وسطی ایشائی ممالک کو بھی شامل کرکے ایک جامع لائحہ عمل تیار کیا جائے جس پراقوام متحدہ عمل کرے اور افغانستان سے قابض فوجوں کے انخلاء کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تعمیر نو اور علاقے میںدیرپا امن کے قیام کیلئے مناسب اقدامات کر سکے۔افغانستان اور پاکستان کے حالات کی درستی کے ساتھ ساتھ یہ نہایت ضروری ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی صحیح سمت میں ہو۔

خارجہ پالیسی اس وقت تک صحیح سمت گامزن نہیں ہو سکتی جب تک ہماری داخلی صورت حال ایک پروقار مستقبل کی جانب سفر شروع نہیں کرتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور اسی قدر اس کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں۔ اس وقت عوام ایک عجیب بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ ایسی صورت میں نواز شریف کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے اور قوم ان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ فعال کردار ادا کریں تاکہ ہمارا قومی مستقبل پھر آمریت کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔سپریم کورٹ میں چوہدری افتخار کا دوبارہ اپنی اصل پوزیشن سنبھالنا بڑی خوش آئند بات ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ نظام عدل کے قیام سے غریب اور پسے ہوئے عوام کوسستا اور یکساں انصاف مہیا ہوگا اور ان کا استحصال ختم ہوگا۔ یہ وہ شخصیات ہیں جوہماری قومی تاریخ میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ قوم اس وقت سوات والوں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے کہ وہاں عوام کو کیسا انصاف ملتا ہے۔ معاشرتی انصاف ایک ایسا عمل ہے جس سے مردہ معاشرے میں بھی زندگی کی روح پھونکی جا سکتی ہے ۔

صدر پاکستان اور وزیر اعظم کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اوبامہ کی نئی پالیسی کا خیر مقدم کیا ہے جو مناسب نہیں ہے اس لئے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد سے پاکستان کیلئے بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر رد عمل ظاہر کیا جائے اور سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ اس پالیسی پر پارلیمنٹ کے اندر تفصیل کے ساتھ غور کرنے کے بعد ایک متفقہ لائحہ عمل پیش کیا جائے۔ جلدی میں ہر بات مان لینے کے نقصانات کا ہمیں تلخ تجربہ ہے اس لئے احتیاط لازم ہے۔

About this publication