The Portrayal of Pakistan and America’s Friendship Is Just a Joke

<--

پاک امریکہ دوستی کا تصور محض ایک مذاق ہے

سٹریٹجک مذاکرات کا حاصل محض دو ارب ڈالر کی فوجی امداد جو دو ہزار بارہ سے ملنا شروع ہوگی اور پانچ سالوں میں جا کر ملے گی اور اس فوجی امداد کا بھانڈا بھی خود وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہ کہہ کر پھوڑ دیا کہ یہ امداد نہیں واجبات ہیں اور پاک فوج یہ رقم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلے ہی خرچ کر چکی ہے۔

امریکہ نے پاکستان پر دوسرا ”احسان” یہ ”وعدہ” کرکے کیا کہ اسے ونڈ انرجی یونٹ دئیے جائیں گے جس سے وہ 150میگاواٹ بجلی پیدا کر سکے گا۔ تھرکول کے وسیع ذخائر جن سے روزانہ 30ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اس کے بارے میں امریکہ کی جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ اس وسیع ذخیرے کو بروئے کار لانے کے لئے پاکستان کی کیا مدد کی جائے گی۔

ہیلری کلنٹن نے پاکستان کو ”بہترین اتحادی” بھی قرار دیا اور اس عنایت خسروانہ پر ہمارے حکمران پھولے نہیں سمائے اور انہوں نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو پاکستان کی اپنی جنگ قرار دیدیا۔ ہم امریکہ سے ایف سولہ طیارے اور کوبرا ہیلی کاپٹرز حاصل کر رہے تھے اور اس بات کے متمنی تھے کہ مزید ایف سولہ طیارے اور کوبرا ہیلی کاپٹرز بھی حاصل کر سکیں گے۔ اس خواہش کا گلا امریکیوں نے یوں گھونٹا کہ ایف سولہ طیاروں اور کوبرا ہیلی کاپٹروں کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کر دیا تاکہ ہم اتنے مہنگے طیارے اور ہیلی کاپٹرز خرید ہی نہ سکیں۔ اس حوالے سے وزیر دفاع احمد مختار کا یہ بیان قابل توجہ ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ قیمت ہماری قوت خرید سے باہر ہوگئی ہے۔ پاکستان کو ڈرون طیارے اور ان کی ٹیکنالوجی دینے کے حوالے سے بھی ٹرخا دیا گیا ہے۔اسکے باوجود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکیوں پر اپنی مسکراہٹیں نچھاور کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا اور سٹریٹجک مذاکرات کے بعد ان کا چہرہ یوں دمک رہا تھا۔ جیسے انہوں نے کوئی بڑا تیر مار لیا ہے۔ شاید یہ مسکراہٹیں امریکی صدر اوبامہ کے اس بیان کی وجہ سے تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنے دی جائے گی۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ پر 37ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کر چکا ہے اور یہ جنگ عوام کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی سے لڑی جارہی ہے۔ یعنی پیسہ بھی ہمارا’ فوج بھی ہماری اور جنگ امریکہ کی جسے حکمران اپنی جنگ قرار دے کر وہی غلطی کر رہے ہیں جو مشرف نے کی تھی۔ یہ کیسی جنگ ہے جس میں امریکی ڈرون طیارے ہمارے لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور ہمیں اتنا اختیار بھی نہیں دیا جارہا کہ یہ ڈرون طیارے پاکستانی فوج کے پاس ہوں اور وہ جہاں ضرورت سمجھے خود ان کا استعمال کرے۔

جنرل ضیاء الحق مرحوم ایک ڈکٹیٹر تھے لیکن انہوں نے چند ارب ڈالرز کی امریکی امداد کو ”مونگ پھلی” قرار دے کر رد کر دیا تھا۔ امریکی پیسے اور اسلحے کے ساتھ اپنی مرضی سے یہ جنگ لڑی اور اپنی مرضی کے دام بھی وصول کئے۔ اس کے مقابلے میں موجودہ جمہوری حکومت نے تو سراسر خسارے کا سودا کیا۔ اور اب اس خسارے کے سودے کو عوام کے سامنے منافع کا سودا بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

امریکہ اگر صرف تھرکول کے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کے لئے ہمیں ضروری سازوسامان ہی دے دیتا تو ہم توانائی کے بحران پر قابو پالیتے اور ہماری معیشت کا پہیہ رواں ہو جاتا۔ معیشت کا پہیہ رواں ہو جاتا تو ہمیں امریکہ سمیت کسی ملک کی امداد یا قرضوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی تو اس ضرورت کے ختم ہو جانے پر ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ کرنے کے قابل ہو جاتے اور یہی وہ معاملہ ہے جو امریکیوں کو کھٹکتا ہے۔ وہ ہمیں کسی بھی صورت اپنی مٹھی میں بند رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کا ہر ناجائز مطالبہ مانیں اور وہی کریں جو وہ چاہتے ہیں۔

اگر ہماری موجودہ حکومت میں جرات ہوتی اور وہ خوداعتمادی سے محروم نہ ہوتی تو دو ارب ڈالر کی ”امداد” کو اسی وقت یہ کہہ کر رد کر دیتی کہ یہ تو وہ واجبات ہیں جو ہماری فوج پہلے ہی خرچ کر چکی ہے۔ امریکہ یہ بتائے کہ وہ ہمیں آئندہ کے لئے فوجی اخراجات کی مد میں کتنی رقم دے رہا ہے۔ تھوڑی سی ہمت کرلی جاتی تو امریکہ کو ایسا اعلان کرنا پڑتا کیونکہ وہ اس بات کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پیچھے ہٹ جائیں۔ اگر ہمارے وزیر خارجہ اس معاملے میں ایک مضبوط سٹینڈ لے کر ملک واپس آجائے تو امریکی ان کے پیچھے دوڑے دوڑے آتے اور وہ سب کچھ دیتے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔

About this publication