A Preliminary Survey of the WikiLeaks Tsunami

<--

وکی لیکس کے سونامی کا ابتدائی جائزہ

کرنل (ر) اکرام اللہ ـ 1 دن 7 گھنٹے پہلے شائع کی گئی

وکی لیکس کے اب تک منظر پر آنے والے انکشافات کو دنیا بھر کے مختلف حلقوں میں طرح طرح کے ڈرامائی نام دیئے جا رہے ہیں۔ بعض ان کو ایک انتہائی خطرناک سفارتی بم دھماکہ اور بعض تجزیہ نگار مختلف نوعیت کے ان انکشافات کو ایک قیامت برپا کرنے والا زلزلہ قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ بعض ممالک اسے خوفناک سمندری طوفان “سونامی”کا نام دیتے ہیں۔ بعض انکشافات اور الزامات بڑی سنگین نوعیت کے ہیں۔ عالمی سطح کی بے شمار معتبر اور طاقتور شخصیات کے نام نامی تھوک حساب سے بے نقاب کیے گئے ہیں۔ ان انکشافات سے صرف چند ممالک اور ان کے سربراہان حکومت ہی نہیں بلکہ پورا کرہ ارض لڑکھڑا نے کے عالم میں ہے بلکہ اپنے ہوش و حواس کے توازن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ تادم تحریر سائنس و ٹیکنالوجی پر قدرت رکھنے والی سپر پاور ریاستہائے متحدہ امریکہ ان انکشافات کی تردیدو تصدیق کرنے کی بجائے تذبذب میں ہے۔ وکی لیکس کے انکشافات کرنے والا گروہ چند گنتی کے اشخاص پر مشتمل ہے مگر انہوں نے امریکہ کے حساس ترین اداروں پینٹا گون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے انتہائی سکیورٹی میں نصب شدہ Top Secret Codesمیں محفوظ رپورٹوں اور بیانات کو حاصل کر لیا ہے۔ دنیا بھر کے سفارت خانوں اور دیگر اداروں اور مختلف عہدوں نامعلوم ناموں اور بظاہر معصوم جاسوسی سے لاتعلق مختلف ممالک کے مقامی عہدوں پر فائز اشخاص کی حساس رپورٹیں جب ماسٹر کمپیوٹر میں جمع ہوتی ہیں تو ان کے کوڈتوڑ کر ان میں ڈاکہ زنی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن وکی لیکس کے ماہرین نے جس مہارت کے ساتھ کمپیوٹرز کی نقب زنی کر کے حساس معاملات پر تقریباً دو سے لے کر ڈھائی لاکھ فائلوں پر مشتمل اطلاعات مختلف مراسلوں کی صورت میں اکٹھی کرلی ہیں یہ کمپیوٹر کی دنیا میں ڈاکہ زنی کا ایک ایسا انقلابی اقدام ہے جس سے دنیا کے کسی دارالحکومت میں کوئی حساس ترین ریکارڈ بھی اب محفوظ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹا گون کے اعلی ترین عہدیدار ذہنی طور پر گھبراہٹ بلکہ اپنی سٹپٹانے کی کیفیت کو چھپانے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کر رہے ہیں جس کے بعض نمونے سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن اور پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کے بیانات عکاسی کرتے ہیں۔

ایسی نامکمل اور غیر یقینی صورت احوال میں وکی لیکس کے انکشافات سے بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے مابین تعلقات پر پڑنے والے اثرات کا تفصیلی جائزہ لینا قبل از وقت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورت حال مزید واضح ہوتی جائے گی۔ کیونکہ انکشاف کیے گئے بیانات یا رپورٹیں محض مختلف نوعیت کی اطلاعات پر مبنی ہیں انہیں کسی حکومت کا کسی دوسرے ملک یا شخصیت کے بارے میں حکومتی یا خارجہ پالیسی کا ہرگز حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن وکی لیکس کو با لکل رد کر کے ٹوکری میں پھینک دینا بھی حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ اس لئے جب یہ انکشاف کیا جائے کہ کسی بھی موقع پر پاکستانی افزودہ یورینیم پر قبضے کا منصوبہ کسی بھی سطح پر زیر بحث آیا تھا خواہ وہ کامیاب نہ ہو سکا ہو تو ایسی سوچ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے یقنیاً لمحہ فکریہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی سطح پر کسی نے پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہونے پر شکوک و خدشات کا اظہار کیا ہے تو اسلام آباد اور تہران ایسی سوچ پر اپنے دماغوں کو تالا نہیں لگا سکتے۔

ایسے ہی پاکستان کے بعض سیاسی قائدین کے کردار کے بارے میں رائے کا اظہار مستقبل میں ان کی creditabilityپر گہرے اثرات مرتب کو سکتا ہے چاہے ایسے تاثرات کا اظہار کسی بھی حوالے سے اور کسی بھی سطح پر بے شک غیر سنجیدہ طور پر ہی کسی بیرونی شخصیت کی طرف سے کسی پرائیویٹ محفل میں اظہار رائے کے طور پر کیا جائے۔ کیا یہ ڈاکہ زنی شوقیہ طور پر عمل میں آئی ہے یا اس وکی لیکس کے ان انکشافات کا موجودہ اوقات کار کا انتخاب محض اتفاقیہ ہے یا اس کے پیچھے پاکستان کے بعض لیڈروں اور پاکستان کے موجودہ منظرنامے کو پاکستان ایران سعودی عرب گلف ممالک اور دیگر کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر عالم اسلام کی وحدت کو نقصان پہنچانا مقصود ہے۔ اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا اگرچہ قبل از وقت ہے لیکن وکی لیکس کے سنسنی خیز انکشافات خواہ وہ کتنی ہی کمزور اور غیر مصدقہ اطلاعات پر مبنی کچی رپورٹیں ہی کیوں نہ ہوں ان کو ایک psychological warfareکی صورت میں استعمال کرنے کی بھونڈی اور مذموم کاوش کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن عالمی ذرائع ابلاغ پر سرسری نظر ڈالنے پر بھی واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی بڑی طاقتیں نہایت سرعت کے ساتھ وکی لیکس کے انکشافات کے فال آﺅٹ سے اپنی اپنی مملکت کے لئے damage controlکے تمام ممکنہ امکانات پر قابو پانے کی سرتوڑ کاوشیں کر رہی ہیں ہر کوئی ان انکشافات کی مذمت کر رہا ہے اور ان انکشافات کو غیر اسلامی غیر قانونی اور قابل گرفت قرار دے کر قانونی کاروائی کا تقاضا کر رہا ہے۔ دوسری طرف وکی لیکس کی مختصر چھوٹی سی ٹیم یا ادارے کے سربراہ کمپیوٹر سائنس کے 39سالہ نوجوان اور زیرک ماہر Julian Assange کا کہنا ہے کہ اس نے امریکہ کی حالیہ سفارتی تاریخ کے مختلف تاریک پہلوﺅں سے پردہ اٹھا کر دنیا اور عالمی برادری کو امریکی سفارت کاری اور اس کے پیچھے سٹریٹجک مقاصد کی ایک ہلکی سی جھلک سے روشناس کرنے کی کوشش کی ہے اس لیے اس نے کسی بھی ذرائع سے ان دستاویزات کو حاصل کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کوئی اخلاقی قانونی یا آئینی جرم کا ارتکا ب نہیں کیا بلکہ سچ کو تلاش کرنے کا اکیسویں صدی کے انسان کا ایک بنیادی انسانی حق بروئے کار لانے کی کاوش کی ہے۔ وکی لیکس کی عالمی سطح پر فال آﺅٹ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ !

About this publication