America and Its Allies’ Assault on Libya … There Is Still Time for the Muslim Ummah to Unite

<--

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے لیبیا پر فضائی اور بحری حملہ کر دیا ہے جس میں متعدد لیبئن باشندوں کے جاں بحق اور لیبیا کی 20 سے زائد فوجی تنصیبات تباہ ہونے کی اطلاع ہے۔ امریکہ کی جانب سے ہفتے کے روز لیبیا پر کروز میزائلوں سے بڑا حملہ کیا گیا اور اس حملے کے دوران طرابلس اور مصراتہ میں شدید دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ جبکہ فرانسیسی جنگی طیاروں نے بھی لیبیا پر بمباری کی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق 20 فرانسیسی جنگی طیاروں کی بمباری سے لیبئن افواج کے متعدد ٹینک اور فوجی گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ بعض ذرائع کے مطابق فضائی حملے کے دوران طرابلس کے ہسپتال اور ایک فوجی کالونی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ لیبیا پر امریکہ، فرانس، برطانیہ، کینیڈا، اٹلی اور عرب لیگ کے ممالک نے مشترکہ طور پر حملے شروع کئے ہیں ان حملوں میں 110ٹام ہاک میزائل بھی داغے گئے ہیں۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ حملے کا ہدف لیبیا کا دفاعی نظام ہے۔ اس آپریشن کو ”اوڈیسی ڈان“ کا نام دیا گیا ہے۔

امریکی اتحادی افواج کے اس حملے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لیبیا کے صدر معمر قذافی نے اعلان کیا ہے کہ لیبیا کے عوام صلیبی نوآبادیاتی جارحیت کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے شہریوں کو مسلح کرنے کا اعلان کیا اور بحیرہ¿ روم میں اتحادی ٹھکانوں پر حملوں کی دھمکی دی جس پر امریکہ کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ صدر معمر قذافی کے پاس زہریلی گیس اور کیمیائی ہتھیار ہیںجو وہ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر اوبامہ نے اگرچہ یہ اعلان کیا ہے کہ امریکی فوج لیبیا کے خلاف زمینی کارروائی میں حصہ نہیں لے گی تاہم لیبیا کے فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی فورسز نے شہریوں اور مصراتہ میں تیل کے ذخائر کو نشانہ بنایا ہے۔

عرب ریاستوں میں مطلق العنانیت، شخصی حکمرانیوں اور ان کی دھن دولت کی ہوس کے خلاف عوامی بیداری کی جو لہر تیونس میں اٹھی تھی وہ تیونس، مصر، اردن، بحرین میں اپنے اثرات چھوڑتی اور وہاں فوجی حکمرانیوں کی راہ ہموار کرتی ہوئی لیبیا تک پہنچی تاہم لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی نے جو 1969ءسے اقتدار پر براجمان ہیں اور لیبیا پر مطلق العنانیت کے بجائے خالص عوامی حکومت قائم کرنے کے داعی ہیں، لیبیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی اس لہر کے آگے پسپائی اختیار کرنے کے بجائے ریاستی فوجی مشینری کی طاقت سے باغیوں کو کچلنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً ہزاروں لیبئن باشندے اقتدار کو بچائے رکھنے والی قذافی کی اس پالیسی کی بھینٹ چڑھ کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ابھی اندازہ لگانا مشکل ہے جبکہ اب امریکی اتحادی افواج کے فضائی اور بحری حملے اور کرنل قذافی کی اختیار کردہ سخت مزاحمت کی پالیسی سے لیبیا کے تہس نہس ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گیا ہے۔

عرب ریاستوں میں بادشاہتوں، مطلق العنانیت ، شخصی حکمرانیوں اور آمریت کے خلاف جن حالات کے پس منظر میں تبدیلی کی لہر اٹھی جو وسیع پیمانے پر خونریزی پر منتج ہوئی۔ ان حالات کو بلاشبہ درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عرب ریاستوں کے عوام کو حکومت و مملکت کے امور میں اپنی شمولیت کا احساس ہو اور آزادی¿ اظہار پر پابندی سمیت انہیں لاحق ہونے والی محرومیوں کا ازالہ ہو۔ اس سلسلہ میں اسلام کے شورائی نظام کو مضبوط و مستحکم بنا کر اسلامی جمہوریت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ بے شک مسلم ممالک کے مطلق العنان حکمران برطانیہ جیسی روایتی بادشاہت برقرار رکھیں اور ان کے خاندان کے ارکان ہی ولی عہد اور شہزاد ے بنتے رہیں تاہم اب کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے اجاگر کردہ شعور و آگہی کے موجودہ دور میں ریاستی طاقت و جبر کے زور پر اپنے حقوق کےلئے بلند ہونے والی شہریوں کی آواز کو دبانا اور مطلق العنان کی حیثیت سے ان پر سالہا سال اور خاندان در خاندان مسلط رہنا ممکن نہیں رہا۔ اس تناظر میں عرب ریاستوں کے حکمرانوں کو مزید شورشوں کے سر اٹھانے سے پہلے ہی خود کو سنبھال لینا چاہئے اور اپنے اپنے ملک کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کر کے اسلامی جمہوری فلاحی معاشروں کی بنیاد رکھنی چاہئے تاکہ مسلم امہ کی بیداری کو کروسیڈی ذہنیت والی عالم کفر کی طاغوتی طاقتوں کے خلاف بروئے کار لایا جا سکے۔

اگر مسلم ممالک خود متحد ہوں اور اپنے وسائل پنجہ¿ ہنود و یہود میں دینے کے بجائے خود استعمال کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہوں تو مسلم امہ کے درپے شیطانی اتحادیوں کو مسلم ممالک کو ایک ایک کر کے مارنے کی ہمت و جرا¿ت کیونکر ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان حکمرانوں کی اپنی مصلحتوں اور کمزوریوں کا نتیجہ ہی ہم آج اہل کفر و الحاد کے غلبہ کی صورت میں بھگت رہے ہیں جو قدرتی دولت و وسائل سے مالامال عرب ریاستوں اور جنوبی ایشیا کے دیگر مسلم ممالک پر حیلے بہانے سے جھپٹنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

امریکی نائین الیون کے خودساختہ واقعہ کے بعد عراق کے تیل کے ذخائر پر قبضہ جمانے کی نیت سے عراق پر فضائی حملہ کر کے اسے تہس نہس کیا گیا اور صدام حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں اپنی کٹھ پتلی مالکی حکومت قائم کر دی گئی۔ عراق پر امریکی اتحادی جنگی جرائم کی اب دل ہلا دینے والی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اور خود امریکی حکام یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ جن ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کے شبہ میں عراق پر حملہ کیا گیا تھا وہ عراق میں کہیں سے بھی برآمد نہیں ہوئے۔ اس غلطی کے اعتراف کے باوجود امریکی حکام معافی مانگنے کو تیار نہیں کیونکہ اب عراق کے تیل کے ذخائر پر امریکی تسلط راسخ ہو چکا ہے۔ اسی طرح القاعدہ کے خاتمہ کے نام پر افغانستان کا تورا بورا بنانے کا مقصد بھی قدرتی معدنیات کے خزانوں سے مالامال اس مسلمان ملک پر ہاتھ صاف کرنے کا تھا۔ جو اپنے کٹھ پتلی کرزئی کے ذریعے پورا کیا گیا، جبکہ ایران پر بھی بُری نظریں اس کے تیل کے ذخائر کی وجہ سے گاڑی گئیں حالانکہ یہی ایران شاہِ ایران کی امریکہ نواز آزاد منش پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا۔ جبکہ پاکستان بھی امریکہ کو کانٹے کی طرح اس لئے چبھتا ہے کہ اس کے قبائلی علاقوں میں دفن قدرتی دھاتوں اور معدنیات کے خزانوں تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہو پا رہی۔

اگر مسلم ممالک کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر قدرت کے ان تحائف اور خزانوں کو امتِ واحدہ کی حیثیت سے اپنی ترقی و خوشحالی کےلئے بروئے کار لائیں تو مسلم ممالک کا بلاک اس خطے میں ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی اپنی قوت کو منوا کر عالمِ کفر پر اسلامی غلبے کی بنیاد رکھ سکتا ہے اور سامراج کے ساہوکارانہ ظالمانہ نظام کے شکنجے سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ مگر بدقسمتی سے 56 مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اور عرب لیگ خواب خرگوش میں ہی نہیں، انہی طاغوتی طاقتوں کی آلہ کار بھی بن چکی ہیں۔ جن کا مقصدِ اول ہی مسلم امہ کو تہس نہس کرنے کا ہے۔ کیا اس سے بڑی بے حمیتی کوئی اور ہو سکتی ہے کہ عرب ریاست لیبیا پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے فضائی اور بحری حملے میں عرب لیگ سے وابستہ ممالک بھی شریک ہیں اور ایک مسلم ریاست کو اپنے ہاتھوں سے مارنے اور دفن کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ عالم کفر کی نمائندہ طاغوتی طاقتوں کے ہاتھ روکنے کےلئے تمام مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر متحد و یکسو ہو جائیں اور مسلم امہ کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کے ان کے عزائم خاک میں ملا دیں ورنہ وہ ایک ایک کر کے ہمیں مارتے اور نشان عبرت بناتے رہیں گے اور ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔

About this publication