Pakistani Public Opinion Is Strongly against America

<--

پاکستانی رائے عامہ امریکہ کے سخت خلاف ہے

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اگر انہوں نے امریکہ سے مزید تعاون کیا تو ان کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں رائے عامہ امریکہ کے خلاف ہے اور وہ عوامی رائے کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے امداد بند کردی تو ہم گزارا کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان تعاون ختم ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ ہمارے مر رہے ہیں اور سول ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھارت سے کیا گیا ہے۔

پاکستانیوں کے خون میں امریکہ سے نفرت رچی بسی ہوئی ہے کیونکہ پاکستان کا ایک عام آدمی بھی اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ ہماری تباہی کا ذمہ دار امریکہ ہے جس نے نہ تو ہمارے ہاں جمہوریت کو پھلنے پھولنے دیا اور نہ ہی اسے پاکستان کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق سے کوئی دلچسپی ہے۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے پاکستان میں آمریتوں کی راہ ہموار کی اور ڈکٹیٹروں سے وہ کام کرائے جن کی وجہ سے پاکستان دلدل میں پھنس چکا ہے۔

پاکستان کے عوام اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اگر وطن عزیز کے قیام سے لے کر اب تک جمہوریت کا تسلسل جاری رہتا تو آج ہمارے حالات ہندوستان سے بھی بہت بہتر ہوتے اور ملک قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر بن چکا ہوتا۔

درحقیقت یہ وہ سچائی ہے جس سے ہمارا ہر جمہوری حکمران واقف ہوتا ہے لیکن جمہوریت پسندوں کے سروں پر آمریت کی تلوار لٹکا کر امریکہ نے انہیں اس حد تک خوفزدہ کر رکھا ہے کہ وہ حق سچ کی بات زبان سے نکالتے ہی نہیں اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے اسے خوش رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔

امریکہ پاکستان کے داخلہ اور خارجہ معاملات میں اس حد تک دخیل رہا ہے کہ ہم آج تک نہ تو آزاد خارجہ پالیسی بناسکے اور نہ ہی داخلی محاذ پر ایسے فیصلے کرسکے جن کی مدد سے پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کیا جاسکتا۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں مداخلت اور حاکمانہ رویئے نے پاکستانی عوام کو امریکہ سے اس حد تک بیزار کردیا ہے کہ اب وہ امریکہ کی امداد پر انحصار کرنے کی بجائے گھاس کھانے کو بھی تیار ہیں۔

ایک پڑھا لکھا پاکستانی جب اس حوالے سے ہندوستان اور پاکستان کے حالات کا موازنہ کرتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ واشنگٹن دہلی کے ساتھ تو برابری کی سطح پر بات کرتا ہے لیکن اسلام آباد کو اپنی چراگاہ سمجھتا ہے۔ دہلی میں امریکی سفیر آداب سفارت کاری کا بھرپور خیال رکھتا ہے لیکن اسلام آباد میں موجود امریکی سفیر خود کو وائسرائے سمجھتا ہے۔ واشنگٹن کے اس رویئے نے پاکستانی عوام کو سخت بدظن کر رکھا ہے اور عوام کی غالب اکثریت کی رائے میں اب پاکستان کو امریکہ سے اپنی راہیں جدا کرکے غلامی کی زنجیریں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے توڑ دینی چاہیں اور سفارتی عملے کے سوا جتنے بھی امریکی اہلکار دندناتے پھر رہے ہیں انہیں پیک کرکے واشنگٹن بھجوا دینا چاہیے۔

اس رائے کے حامل پاکستانی کسی بھی جوابی ردعمل کے لئے بالکل تیار ہیں اور کسی بھی قیمت پر امریکی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب پاکستان کا نوجوان طبقہ خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اسی طرح میدان میں نکلیں گے جس طرح شاہ ایرا ن کے آخری دنوں میں ایرانی شہروں سے نکلے تھے۔

خیبر سے کراچی تک سب سے مقبول نعرہ ہوگا ، امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے، غدار ہے اور یہ نعرہ اتنی شدت سے گونجے گا کہ اگر پاکستانی حکمران چاہیں گے بھی تو امریکہ کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے اور اگر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کریں گے تو عوام کا سیل رواں انہیں بھی ساتھ بہا لے جائے گا۔

عوام کے اس مائینڈ سیٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر وزیر اعظم گیلانی کے تازہ ترین بیان کو غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ حکمران بھی امریکہ سے بیزار ہوچکے ہیں اور امریکی امداد بند ہونے کی صورت میں بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔

طاقت کے نشے میں مخمور امریکہ کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لمحے کے لئے بھی اپنے گریبان میں جھانکنے اور یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس کی مسلم کش معاندانہ پالیسیوں ، حاکمانہ اور جابرانہ رویوں اور مسلم ملکوں کے معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت نے پوری اسلامی دنیا کو اس سے بیزار کر رکھا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کے سامنے اُٹھ کھڑا ہوا تو تھوڑے ہی عرصے بعد عالم اسلام بھی اس کے سامنے سینہ سپر ہو جائے گا اور پھر دو باتیں ہوں گی۔ یا تو امریکہ اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور ہو جائے گا یا طاقت کے استعمال کی طرف جائے گا۔ پہلا راستہ اس کی بقا کا راستہ جبکہ دوسرا راستہ تباہی کا ہے۔ اسے سوچنا ہوگا کہ اگر 10سالوں میں کھربوں ڈالرز خرچ کرکے اور مہلک ترین جنگی اسلحہ استعمال کرکے وہ طالبان کو زیر نہ کرسکا تو پوری دنیا کے مسلمانوں کا مقابلہ کیسے کرے گا؟ اس کے مفادات دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کیا وہ ان مفادات کو دائو پر لگانے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟ ہماری رائے میں نہیں اور جو کچھ وزیر اعظم نے کہا اگر اسے پاکستان نے اپنی پالیسی بنالیا تو امریکہ امداد بھی دے گا ، برابری کی سطح پر با ت بھی کرے گا اور بندوق کے بجائے مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کرے گا۔

About this publication