امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا دورہ پاکستان کے دوران ”خراب موڈ“ پوری دنیا نے دیکھا۔ امریکی میڈیا پر پاکستان اور امریکہ کے سربراہان کی جانب سے سرد رویہ کو بھی ڈسکس کیا جاتا رہا۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی تو ہیڈ لائن یہی تھی :
Tense Relations: Clinton Gets a Cold Reception in Pakistan
امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان ہیلری کلنٹن کے ساتھ سر دمہری سے پیش آیا ۔ہیلری کلنٹن جن کی شخصیت کے بارے میں مشہور ہے کہ ”ہسدی دے دند کھڑدے“ انہیں پہلی بار اس قدر سنجیدہ دیکھا گیا۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان کے سول اور عسکری حکام نے امریکی شخصیات کے ساتھ کولڈ رویہ اختیار کرکے امریکہ کو تعلقات کی حدود متعین کرنے کا پیغام دیا ہے جبکہ امریکی فوج کے ایڈمرل مائک مولن کا کہنا ہے کہ دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی حکام سے ملاقات میں تنا ¶کی باتیں مبالغہ آرائی ہیں۔ بات چیت دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے ملاقات کے حوالے سے دعویٰ کیاہے کہ پاکستانی حکومت شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف نہایت اہم اور بڑا اپریشن کرے گی۔ دونوں ملک دہشت گردی کے خلاف پر عزم ہیں ۔۔۔! مائک مولن اور ہیلری کلنٹن کے ساتھ پاکستانی حکام کی سرد مہری اور پاک امریکی تعلقات سے متعلق آئندہ حکمت عملی میں محتاط رویہ کے اظہار کے پیچھے پاکستانی عوام کی ناراضی ہے جسے پاکستان کی عسکری قیادت مزید نظر انداز نہیں کر سکے گی مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی جنگ پاکستان کے لئے ”عراق“ بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان خوفناک دلدل میں پھنس چکا ہے۔ وار آن ٹیرر ”کمبل“ ہو چکی ہے۔ امریکی آئے اور دہشت گردوں کے خاتمے کی ایک اور فہرست تھما گئے۔ پاکستانی اپنے حکام سے بدظن ہو چکے ہیں۔ اسامہ اپریشن اور مہران حملے کے بعد پاکستانی حکام کی خاموشی اور غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے عوام کے جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ امریکی حکام اپنے لوگوں کے ساتھ اتنے بڑے بڑے جھوٹ نہیں بول سکتے کہ جن کے کھل جانے پر انہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں جبکہ پاکستانی حکام بڑے بڑے جھوٹ بڑے اعتماد کے ساتھ بول جاتے ہیں جس کی وجہ ملک کا قانون اور انصاف ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں نہ پہلے کسی جھوٹ اور دھوکے کا احتساب ہو سکا اور نہ ہی مستقبل میں کسی قیادت کے جیل جانے کا امکان ہے۔ اسامہ قتل کے بارے میں امریکی دعوے کو مسترد کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت درکار ہے۔ امریکہ کی اکثریت اپنی حکومت کے دعوے پر اعتماد کرتی ہے کہ اس ملک میں جھوٹ ثابت ہونے کی سزا نہایت سنگین ہے۔ پاکستانیوں کے اعتماد کو صرف عسکری قیادت بحال کر سکتی ہے۔کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام وار آن ٹیرر کو ڈالروں کے حصول کا جواز بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اسے بازار میں سجا کر اس کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ذاتی مفادات اور جان کی امان کی خاطر امریکہ سے بغاوت کی جرا ¿ت نہیں کر سکتے ہیں کہ امریکہ ایسی”نافرمانیوں“ کو پسند نہیں کرتا۔ پاکستانیوں کے پاس دمشق اور مصر کے طریقہ احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ووٹ کا حق انہیں استعمال کرنا آیا اور نہ ہی آئے گا۔ زرداری جائے گا تو ”سردار بلاول زرداری“ آ جائے گا۔ بلال اگر بھٹو ہوتا تو زرداری قبیلے کا سردار نہ ہوتا۔ جھوٹ اور ڈرامہ سیاستدانوں کی ”گھٹی“ میں ہے۔ سرداری دادا کی اور پارٹی نانا کی۔ خدا اس انوکھے لاڈلے کو زندہ رکھے، اس کا ووٹ بینک محفوظ ہے۔ پاکستانیوں کی بھارت سے نہیں عقل سے دشمنی ہے۔ پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسی عجیب و غریب صورتحال اختیار کر تی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا سیاسی رومانس دلچسپ موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کے ملزم میاں نواز شریف اگلے چند ماہ میں نہایت سنجیدہ اقدام اٹھائیں گے۔ مالی بجٹ، ایبٹ آباد اپریشن آزاد کمشن اور مہران حملہ سے متعلق سخت مہم چلانے جا رہے ہیں جس سے یا تو وہ حکومت کو سیاسی و اخلاقی طور پر نہایت کمزور کر دیں گے یا پھر ایسی صورتحال پیدا کر دیں گے جس سے مڈٹرم الیکشن کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔نواز شریف نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ م ¶قف اختیار کرکے عوام کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ مسلم لیگ قاف پیپلز پارٹی میں تحلیل ہو کر اپنا وجود کھو چکی ہے لہٰذا مسلم لیگ نواز کا پلڑا مزید بھاری ہو گا۔ تحریک انصاف کی ”اینٹی ڈرونز پالیسی“ اس وقت تک پاور فل ثابت نہیں ہو سکتی جب تک ملک کے اندر سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف بھرپور مہم نہیں چلائی جاتی۔ پاکستان میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی ڈرونز کا ردعمل نہیں ہو تی۔ مہران حملہ جیسے خطرناک واقعات ڈرونز حملوں کا انتقام نہیں بلکہ بھارت کی سازش ہے جسے بے نقاب کرنا اشد ضروری ہے۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان میں دہشت گردی لانے کا ذمہ دار کون ہے، عوام اور سیاسی و عسکری اداروں میں اتحاد و اتفاق کے بغیر اس لعنت سے نجات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی کارروائی کا جو سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے، اس کے لئے عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا وگرنہ ”لینے کے دینے“ پڑ سکتے ہیں اور مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔ عوام کے اعتماد کا جس بے دردی کے ساتھ خون کیا گیا ہے، اس کو بحال کئے بغیر شمالی وزیرستان کی طرف قدم بڑھانا مزید انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔!
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.