When I Say I Am a Muslim, I Shiver!

Edited by Janie Boschma

<--

جس طرح امریکی صدر جارج بش اور وزیر خارجہ کنڈو لیزارائس نے امریکی طیاروں اور ڈرون حملوں پر کبھی معذرت نہیں کی تھی بلکہ اس ظلم و بربریت کو خوش آئندہ بھی قرار دیا جاتا تھا۔ اسی طرح حالیہ دور میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی معصوم اور بے گناہ افراد پر ڈرون حملوں اور اب تک 36 ہزار پاکستانی معصوم شہریوں اور 5 ہزار فوجی جوانوں کی ہلاکت پر بھی خوش ہیں اور فخر محسوس کرتی ہونگی۔ دکھ اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کی حکومت باقاعدہ اور باضابطہ اس ظلم و بربریت کا ساتھ دے رہی ہے اور تسلسل کے ساتھ امریکی پالیسیوں کو اپنائے ہوئے ہے۔ حیرت و شرمندگی ہے کہ کس طرح 2 مئی 2011ءکو ایبٹ آباد پر امریکی حملہ کیا گیا اور اسامہ بن لادن کو شہید کر دیا گیا۔ کمال ہے کہ کیا پوری قوم بشمول افواجِ پاکستان سو رہے تھے اور امریکیوں نے بے دھڑک‘ بلاخوف و خطر اپنا کام کر دکھایا۔ یہ سبھی کچھ ایٹمی پاکستان میں ہو رہا ہے‘ کراچی کے مہران نیول بیس پر حملہ کس نے کروایا ہے اور یہ خودکش حملے پاکستان کے وقار اور آزادی اور سلامتی کے منہ پر طمانچہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے جو امریکی پالیسی اپنائے رکھی تھی۔ کمال ”غیرت و حمیت“ تھی یا کمال ”جرات اور استقامت“ تھی ایک ایسے نام نہاد مسلمان صدر کی جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر تھا اور ایٹمی پاکستان کا کلی خودمختار حکمران تھا۔ امریکہ کی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی کا اندازہ لگائیں کہ پاکستان پوری دنیا میں واحد اتحادی ہونے کے ناتے اپنے تمام تر مقاصد اور مفادات امریکی پالیسیوں پر قربان کر رہا ہے۔ لاہور کے واقعہ میں ریمنڈ ڈیوس شاید یہ اس کا اصلی نام ہے کہ نہیں ایک امریکی جاسوس کی صورت میں جو بلیک واٹر یا انٹر رسک یا کسی اور امریکی خطرناک ایجنسی کا رکن ہے تین پاکستانی شہریوں کو دن دیہاڑے قتل کر دے اور امریکی بے شرمی اور بے حیائی کا عالم یہ ہے کہ اسے باعزت طور پر رہا کر کے امریکہ لے گئے۔ مجھے بتایا جائے کہ عافیہ صدیقی کو کس دی آنا کنونشن کے تحت گرفتار کیا گیا اور اس پر ناجائز مقدمہ چلایا گیااور سزا بھی دے دی گئی۔ امریکہ کس بین الاقوامی قانون کے تحت حق رکھتا ہے کہ وہ جس پاکستانی شہری کو چاہے گرفتار کر کے امریکہ لے جائے اور وہی اس کو سزا بھی دے دے۔ کیا یہ سبھی پاکستان کی آزادی اور سالمیت پر چھرا چلانے والی بات نہیں۔ کیا حضرت علامہ اقبالؒ نے کبھی اپنی امت مسلمہ کو غلامی قبول کرنے کےلئے ہدایت دی تھی۔ اگر خدانخواستہ ایسے نظریات و تصورات ہوتے تو شاید پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔ جناب مجید نظامی کئی بار یہ ذکر کر چکے ہیں کہ ہمارے ایٹم بم اور ایٹمی میزائل انشاءاللہ اپنا کام کر دکھائیں گے اور شیطانی اتحادِ ثلاثہ کی دھوتیاں گیلی ہو جائیں گی۔ عرض کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ القاعدہ کہاں ہے طالبان کہاں ہے اور ان کی قیادت کہاں ہے۔ امریکہ سپر سانک الیکٹرونک کیمروں کی مدد سے سمندر کی تہہ میں ایک چیونٹی تک کو تو دیکھ سکتا ہے مگر القاعدہ اور طالبان کا پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں اگر امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو بے وقار اور بیوقوف بنا کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک پہنچ جائے تو یہ امریکہ کی بھول ہے ایسا ممکن نہیں ہوگا اور نہ پاکستانی قوم جو اس عصر حاضر میں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے جب جاگے گی اور خدا کرے کہ جلد جاگے اور اپنی قومی ذمہ داری کا احساس پیدا کرے وگرنہ خاصی دیر ہو جائے گی۔ امریکی باجگزاری سے نکلنا ہوگا وگرنہ صرف ایشیا ہی نہیں تمام کائنات خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے امتِ مسلمہ کے حوالے سے درج ذیل خوبصورت شعر فرمایا‘ کاش مسلم امت کے حکمران فہم و ادراک سے کام لے سکیں اور بالخصوص پاکستان کی حکومت کے زعمائے کرام یہ سمجھ سکیں۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں….

چو میگویم مسلمانم‘ بلرزم !

کہ دانم مشکلاتِ لا الہٰ را !

About this publication