Will Hope Reign When We See Tomorrow’s Dawn?

<--

صبا گلیوں میں چلنا چاہتی ہے؟

| ـ 22 جون ، 2011

’امریکہ نے افغانستان اور پاکستان سے کہیں زیادہ توجہ عراق پر دی اور کہیں زیادہ پیسہ عراق میں لگایا اور اب وہ پاکستان سے کہیں زیادہ پیسہ افغانستان میں لگا رہا ہے! امریکہ پر لازم آچکا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے دل جیتنے کے لئے میدان میں اُترے!“ ”برطانیہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کےلئے کی جانے والی ہر کوشش کی بھرپور حمایت کا پابند ہے!“ القاعدہ کی مالی معاونت کرنے والے جلد تلاش کر لئے جائیں گے! پیسوں کی فراہمی کےلئے القاعدہ نے پاکستان میں ”اغوا برائے تاوان“ کا سلسلہ شروع کیا!“ چالیس لاکھ 80 ہزار دَر بَدر فلسطینی انتہائی غربت کا شکار ہیں!“ ”رماط شالوم میں 2000 نئے مکانات کی تعمیراتی منظوری دے دی گئی! یہ ایک نئی یہودی بستی ہوگی!“

امریکی اور برطانوی مہم جوئی کے طوفانِ آتش و آہن کے اُٹھائے ہوئے دھواں دھار بادلوں سے بند آنکھوں تلے ”یہودی لابی“ اپنا ”تابکار ایجنڈا“ بڑی آہستگی کے ساتھ مکمل کرتی چلی آرہی ہے! ”اسرائیل“ اس دوران ایک صدر معزول اور ایک وزیراعظم ”آکسیجن ٹینٹ“ کے حوالے کر چکا ہے! مگر اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کی راہ سے ایک انچ بھی نہیں ہٹا! یہ ”کامیابی“ امریکہ میں کارفرما یہودی سرمایہ کاروں پر مشتمل ”لابی“ اور اُن کے پَروردہ ذہین ترین افراد کی انتھک محنت کچھ اس انداز میں نتائج مرتب کرتی ہے کہ ”اسرائیل“ ”امریکی چھتری“ کے نیچے ”محفوظ ترین ملک“ کے طور پر جلوہ گر نظر آنے لگتا ہے! نتیجتاً ”امریکی عام انتخابات“ کے ”دونوں امیدوار“ اسی لابی کے سرپرستوں کی ”آشیرباد“ کے خواہاں دکھائی دینے لگتے ہیں، بل کلنٹن سے شروع ہونے والی کہانی بارک اوباما تک آپہنچی ہے! باراک اوباما نے بھی اسرائیل پر زور دیا تھا کہ یہ وقت ”فلسطینی اتھارٹی“ تسلیم کر لینے کےلئے بہترین وقت ہے مگر بیت المقدس کے نواح میں نئی یہودی آبادی کی تعمیراتی منظوری کی خبر کچھ اور ہی داستان سنا رہی ہے!

ہم بھی اپنے تمام معاملات میں ”امریکی آشیرباد“ کے متمنی رہتے ہیں! ہماری حکومتیں عوام کے دل جیتنے کی کوئی کوشش کریں یا نہ کریں مگر ہم امریکہ پر پاکستانی عوام کے دل جیتنے کےلئے ”کچھ نہ کچھ“ کرنے کی فرمائش کرتے نہیں تھکتے! کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی ہر کوشش کی حمایت کا پابند برطانیہ ایسی کسی کوشش میں اپنا کردار ضرور ادا کرے گا! ہم جانتے تھے، مگر اب تو ہمیں باقاعدہ طور پر بتا بھی دیا گیا ہے کہ القاعدہ دس سال پہلے کی القاعدہ نہیں رہی اور ”اغوا برائے تاوان“ کا سلسلہ تمام مالیاتی معاونتوں کا راستہ مسدود کر دیئے جانے کے بعد نکالا گیا تھا اور الظواہری کا سب سے بڑا اثاثہ القاعدہ سے دیرینہ تعلق ہے! مگر افغانستان کی سرزمین پر 92 سال بعد ایران کے کسی وزیرِ دفاع کی آمد ایک جشن کا سماں پیدا کر گئی، بریگیڈئر جنرل احمد واجد نے علاقائی امن کے استحکام میں تعاون کا یقین دلاتے ہوئے بھی تمام علاقائی قوتوں کو یاد دلانا ضروری گردانا کہ امریکہ، اس خطے کے امن کےلئے ایک لٹکتی تلوار ہے اور اس علاقے میں دہشت گردی کے فروغ کی تمام تر ذمہ داری امریکہ کے کاندھوں پر آتی ہے۔

یاد رہے ایران اس خطے میں ”امریکی کانسٹیبل“ کا رول ادا کرتا رہا ہے اور ایرانی ترقی سے خوف زدہ ہو کر امریکہ نے ایران کا امن تہہ و بالا کرنے کا منصوبہ بھی وضع کر لیا تھا مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا! ایرانی پارلیمنٹ دھماکے سے اُڑا دی گئی مگر صرف 90 دن کے اندر انتخابات مکمل کر کے ”پارلیمان“ دوبارہ ”نصب“ یا ”INSTALL“ کر دی گئی! ایران اس خطے میں ”جمہوری نظام کے ساتھ جینے کی تمنا“ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایران، افغانستان اور پاکستان عوامی اُمنگوں کے ساتھ ہی سربلند رہ سکتے ہیں! بارک اوباما بہت جلد افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا اعلان کرنے والے ہیں اور یہ اس خطے میں امن اور جمہوریت کے استحکام کے دور کے آغاز کا اعلان ہوگا! بقول نجیب احمد

حُدودِ صحنِ گلشن سے نکل کر

صبا گلیوں میں چلنا چاہتی ہے

About this publication