American Policy in Afghanistan and Pakistan’s Future

<--

امریکی صدر بارک اوبامہ نے افغانستان سے امریکی فوج کی مرحلہ وار واپسی کے پروگرام کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے شدت پسندوں کے خاتمے کیلئے تعاون جاری رہے گا پاکستان کو اس حوالے سے اپنے عزم کی پاسداری کرنا ہوگی جب تک میں صدر ہوں امریکہ پاکستان میں شدت پسندوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں برداشت نہیں کرے گا جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کیلئے آئندہ فوجی امدد مشروط کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اس وقت تک پاکستان کی فوجی امداد برقرار رکھنے پر تیار نہیں ہے جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کر تا امریکی صدر باراک اوبامہ نے افغانستان سے امریکی فوج کی مرحلہ وار واپسی کے پروگرام کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال دس ہزار جبکہ 2014ء تک مکمل انخلاء کیا جائے گا ۔

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو امریکا یا اس کے اتحادیوں پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے،صدر بارک اوباما نے کہا کہ ایبٹ آباد کمپاونڈ سے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ القاعدہ دباو کاشکارہے۔ امید ہے طالبان سے مذاکرات میں پیشرفت ہوگی، وائس آف امریکہ کو دیئے گئے انٹرویو میں امریکی صدر باراک اوبامہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گرد خطے کے لئے خطرہ ہیں ۔

امریکہ نے متوقع طور پر 2014ء تک افغانستان سے اپنی فوجوں کے مکمل انخلاء کا اعلان کر دیا لیکن خوفناک صورتحال یہ کہ امریکہ نے پاکستان کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنانے کے اشارے دئیے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر نے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی کردار کی تعریف بھی کی لیکن امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ اس وقت تک پاکستان کی فوجی امداد برقرار رکھنے پر تیار نہیں۔ جب تک پاکستان دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کرتا۔

پاکستان نے 40ہزار جانوں اور 80ارب ڈالر کے نقصان کی قربانی دی۔ پرامن پاکستان کے ہر شہر کو میدان جنگ بنا دیا ہے، سماجی رویوں سے لے کر معیشت تک تباہی سے دوچار ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی امریکی نہ تو ہماری قربانیوں کا اعتراف کر رہے ہیں اور نہ ہی ہم پر اعتبار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جھوٹ کی بنیاد پر لڑنے والی جنگوں کا انجام یہی ہوتا ہے کہ اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوتے ہیں۔ امریکہ نے عراق کی جنگ جھوٹ کی بنیاد پر شروع کی وہاں کی تباہی دنیا کے سامنے ہے۔ اس کے بعد نائن الیون واقعے کی آڑ میں افغانستان پر قبضہ کیاگیا اور امریکہ نے جھوٹ کا سہارا لیا کہ اس کی جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اس خطے میں آنے سے قبل یہاں کسی قسم کی دہشت گردی کا وجود نہ تھا ہماری سرحدیں محفوظ تھیں ہمارے ملک میں امن تھا ہماری معیشت ترقی کی جانب سفر کر رہی تھی لیکن آمر پرویز مشرف نے صرف اپنے اقتدار کی طولت کے لئے پاکستان کو بھی امریکی جھوٹ کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگ کا حصہ بنا کر ملک و قوم کا مستقبل اندھیروں کی نذر کر دیا یہی وجہ ہے کہ آج دس برس گزرنے اور پاکستان کی عظیم قربانیوں کے بعد بھی امریکہ نہ تو ہم پر اعتبار کر رہا ہے اور نہ ہی ہمیں جینے کے لئے راستہ دے رہا ہے اس کا تو ایک ہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کا چاہے جتنا نقصان ہو غرض نہیں بس پاکستان اس کے مفادات کے لئے اپنی توانائیاں خرچ کرتا رہے اور اپنے ہی لوگوں کے ساتھ جنگ لڑتا رہے۔

امریکہ جن لوگوں کو آج دہشت گرد کہہ رہا ہے دنیا سوال کیوں نہیں کرتی کہ یہی تو وہ مجاہد ہیں جو آپ کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے اور آج دہشت گرد کیسے بنے، ستم یہ کہ اگر امریکہ دن کو رات اور رات کو دن کہے تو اس کے اس جھوٹ کو سمجھتے ہوئے بھی دنیا ہاں میں ہاں ملا کر پرامن دنیا کو جنگ اور دہشت کے انگاروں کے سپرد کررہی ہے۔ امریکہ دنیا کو تو یہ بتا رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے خلاف لڑ رہا ہے اور اس کی جنگ میں اصل محرک یہود و ہنود ہیں جنہوں نے امریکہ کو اس راستے پر ڈال دیا ہے اگر امریکہ اسلام کے خلاف نہیں اور دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے تو فلسطین میں یہودیوں کی اور کشمیر میں ہندوئوں کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی بجائے ان کی حمایت کیوں کر رہا ہے اور صرف مسلمان ممالک عراق، افغانستان، لیبیا، سوڈان، یمن اور پاکستان کے خلاف ہی اس کی جارحیت کیوں جاری ہے؟ کاش کہ مسلم دنیا کے ممالک امریکہ کے اصل چہرے کا ادراک کرکے اس کی اس جارحیت کے خلاف موثر آواز بلند کرتے تو آج دنیا تباہی کی طرف ہرگز نہ بڑھتی لیکن مسلم دنیا کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے امریکہ اور اس کے حواری ممالک اور پس پردہ طاقتیں آہستہ آہستہ ہر اسلامی ملک کے خلاف اپنی جارحیت کا ارتکاب کرتے ہیں اور جواز تراشا جاتا ہے کہ دہشت گری کے خلاف جنگ ہو رہی ہے۔ امریکہ اس خطے میں جس وقت قابض ہوا اس وقت سے محب وطن حلقے خبردار کر رہے تھ کہ امریکہ کا اصل ہدف افغانستان نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے اور چین کے لئے مشکلات پیدا کرنی ہیں لیکن امریکہ کے ڈالروں کے سحر میں مبتلا ہونے والے حکمران اور نام نہاد دانشوروں نے امریکہ کو اس صدی کا پوری انسانیت کا مسیحا بنا کر پیش کیا لیکن اب اس مسیحا کے چہرے سے وقت نے نقاب الٹ دیا ہے اور اصل چہرہ کھل کر سامنے آچکا ہے اور اس چہرے سے پاکستان اور اسلام دشمنی ٹپک رہی ہے۔ اسی دشمنی کے تحت پاکستان کے اوپر دبائو بڑھایا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مزید سخت کارروائیاں کی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گردی پیدا کس نے کی ہے اور کیا پاکستان نے اس دہشت گردی کی جنگ کے لئے اپنا سب کچھ برباد نہیں کیا ہے، ہونا تو یہ چاہے تھا کہ دنیا پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کرتی لیکن پاکستان کے لئے ہی راستے تنگ کئے جارہے ہیں اور اب کہا جارہاہے پاکستان کے بغیر بھی افغانستان میں کامیابیاں حاصل کی جاسکتیں ہیں اگر ایسا تھا تو پاکستان کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی نہ صرف افغانستان کی جنگ ہار رہے ہیں بلکہ جھوٹ کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگوں کے اصل مقاصد دنیا کے سامنے آچکے ہیں اور ان مقاصد کو چھپانے کے لئے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے کہا جارہا ہے کہ افغانستان میں کامیابی پاکستان کے بغیر بھی حاصل کی جا سکتی ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے، امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر نہ تو افغانستان کی جنگ تو جیت سکتا ہے اور نہ ہی باعزت واپس جاسکتا ہے۔

امریکہ نے اپنا اصلی چہرہ سامنے لا کر پاکستان کے خلاف اپنی پالیسی بیان کی ہے اب ہماری قیادت اور ذمہ دار اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امریکہ کے شر سے بچنے کے لئے کیا پالیسی اپناتے ہیں اور ملک و قوم کا مستقبل محفوظ کیسے بناتے ہیں۔

About this publication