American Military Aid: Sugarcoated Poison Extremely Important to Avoid

<--

امریکی فوجی امداد شوگر کوٹڈ زہر ہے، اس سے بچنا ازبس ضروری ہے

امریکہ نے پاکستان کے لئے 80کروڑ ڈالرز کی فوجی امداد روک دی ہے۔ امریکہ کے اعلیٰ ترین ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بعض اقدامات کی وجہ سے امداد روکنا پڑی، اور جب تک تعلقات معمول پر نہیں آجاتے اس وقت تک امداد بحال نہیں کی جائیگی، اس ضمن میں امریکہ کے موقراخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ شمسی ائیر بیس خالی کرانے کی دھمکیوں اور امریکی ٹرینرز کی بے دخلی سے ناراض ہے اور اس اقدام کا مقصد پاک فوج پر شرپسندوں کے خلاف زیادہ موثر کارروائیاں کرنے کے لئے دبائو ڈالنا بھی ہے روکی جانے والی امداد میں افغان سرحد پر تعینات پاکستانی فوج کے اخراجات کے لئے 30کروڑ ڈالرز بھی شامل ہیں۔پاکستانی فوج کے لئے امریکی امداد ایک ایسا زہر ہے جسے واشنگٹن شوگر کوٹڈ کرکے پیش کرتا ہے، اس امداد کا فائدہ نہ تو پاکستانی فوج کو ہے اور نہ ہی پاکستانی عوام کو۔ اس کے ساتھ امریکی مفادات کی اور مطالبات کی ایک طویل فہرست نتھی ہوتی ہے اور جب امداد وصول کی جائے تو ان مطالبات کو تسلیم کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستانی فوج اپنے ہی ملک کے لوگوں کے ساتھ جنگ کرے اور انہیں ملیامیٹ کر دے حالانکہ کوئی شخص، گروہ یا افراد اگر صحیح راستے سے بھٹک جائیں یا شدت پسندی کی طرف مائل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جاتا ہے کہ وہ شدت پسندی کی طرف کیوں مائل ہوئے؟ اگر ایک وقت تک وہ امن پسند اور صلح جو تھے تو بدلے ہوئے وقت میں ان کے ہاتھوں میں بندوق کیوں ہے؟کسی بھی ریاست میں جب ایسی صورتحال پیدا ہو جائے جو آج پاکستان میں نظر آرہی ہے تو وہ ریاست بھٹکے ہوئے لوگوں کو ٹھیک راستے پر واپس لانے کے لئے ان سے بات چیت کرتی ہے۔ اور ان کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اس کا ازالہ کرکے ایسے لوگوں کو قومی دھارے میں واپس لاتی ہے۔ پوری دنیا میں عالمی طور پر تسلیم شدہ یہ اصول اور قانون کافرما ہے کہ اگر کوئی شخص بڑے سے بڑے جرم کا ارتکاب کر ڈالے تو اسے گولی نہیں ماری جاتی۔ اس کے گھر پر بم نہیں برسائے جاتے بلکہ اسے گرفتار کرکے اس پر مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔ وہ شخص عدالت کی نظرمیں گناہ گار قرار پاتا ہے تو اسے سزا سنا دی جاتی ہے اور اگر بے گناہ قرار پائے تو اسے باعزت رہا کر دیا جاتا ہے۔امریکہ کے اپنے ہاں بھی یہی قانونی رائج ہے لیکن پاکستان اور افغانستان میں جنگل کا قانون چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ جن لوگوں نے قبائلی علاقوں میں ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں انہیں بغیر کسی ٹرائل کے گولی مار دی جائے۔ ان کے گھروں کو بموں سے اڑا دیا جائے اور اس پریکٹس میں جتنے مرضی بے گناہ مارے جائیں اس کی پرواہ نہ کی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہماری فوج مدرسوں اور مساجد پر بھی حملے کرے لیکن ایک اسلامی ملک کی مسلمان فوج مساجد اور مدارس پر کیسے حملے کر سکتی ہے؟ امریکہ کی نظر میں مساجد اور مدارس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی کیونکہ وہ ایک غیر مسلم ملک ہے اور خصوصاً مسلمانوں کے خون کا پیاسا۔ مسلمان کا خون اس کے نزدیک پانی جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا اور وہ انہیں وہ مقام دینے کے لئے بھی تیار نہیں جو امریکہ اور مغربی ملکوں میں جانوروں کو حاصل ہے۔ وہ اپنے خلاف بات کرنے والے کو چیونٹیوں کی طرح مسل دیتا ہے اور دنیا میں آج تک جتنی بھی قتل و غارت گری ہوئی ہے اس میں سب سے زیادہ امریکہ کا حصہ ہے جو ایک مطلوب شخص کے ساتھ پچاس ایسے لوگوں کو بھی مار دیتا ہے جو اس کے خلاف کسی قسم کے منفی عزائم نہیں رکھتے۔

امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاک فوج بلیک واٹرز طرز کی کوئی کرائے کی قاتل تنظیم نہیں ہے بلکہ ایک اسلامی اور ایٹمی ملک کی مسلمان فوج ہے اور امریکہ سے پیسہ لے کر بے گناہوں کا خون نہیں بہا سکتی۔ وہ فوجی کے ساتھ اقتصادی امداد بھی بند کر دے پھر بھی نہ صرف ہماری فوج سلامت رہے گی بلکہ عوام بھی اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے گزارہ کرلیں گے۔پاک فوج اور حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اعلان کر دیں کہ اب امریکہ سے مزید کسی قسم کی فوجی امداد نہیں لی جائے گی اور اگر امریکہ اس امداد کی بحالی پر راضی ہو جاتا ہے۔ تب بھی اس سے یہی کہا جائے کہ ہم یہ امداد نہیں لیں گے۔حکومت بھی اپنے اخراجات کم کرے اور فوج بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی سادہ زندگی گزارنے کی طرف راغب کیا جائے لیکن یہ بیل تبھی منڈھے چڑھے گی جب پہلے حکمران خود سادگی کا نمونہ بن کر دکھائیں گے۔ سادہ لباس، سادہ کھانا سادگی کے ساتھ بچوں، بچیوں کی شادیاں، اسراف سے پرہیز، ایسے اوصاف ہیں جن پر اگر پاکستانی قوم عمل شروع کر دے تو ہمیں کسی قسم کی غیر ملکی امداد کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس حوالے سے صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس، بڑی پارٹیوں کے سربراہ، وزرائ، مشیر سادہ زندگی گزارنے لگیں تو ان کی دیکھا دیکھی عوام بھی سادہ زندگی گزاریں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قرضوں اور امدادوں کے منحوس چکر سے نکل جائیں گے۔

About this publication