National Sovereignty Cannot Be Secured without Elimination of Aid

<--

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی جانب سے بھارت کو خطے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ خطے میں بھارت کی تھانیداری قابل قبول نہیں ہے۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان ملاقات میں امریکہ کے ساتھ تعلقات ، ڈاکٹر غلام نبی فائی کی گرفتاری اور جنرل پاشا کے حالیہ دورہ امریکہ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں بڑوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکی حکام کو متنازعہ بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ امریکہ سے تعاون برابری کی بنیاد پر ہوگا اور ملکی سلامتی اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔

یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت امریکہ کے معاندانہ رویئے کو نہ صرف بہت غور سے دیکھ رہی ہے بلکہ امریکہ کو اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا جارہا ہے۔ ہماری رائے میں سیاسی و عسکری قیادت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ امریکہ نے پاکستان کے حوالے سے جو وطیرہ اختیار کیا ہے وہ عوام کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہے اور پوری قوم کا یہ مطالبہ ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کریں اور کسی بھی طرح کی دھونس برداشت نہ کریں۔ اگر ہم نے اس حوالے سے امریکہ کو ڈھیل دی تو وہ ہمارے سر پر سوار ہو جائے گا اور چاہے گا کہ ہم بھارتی بالادستی کو قبول کرلیں۔ امریکہ کے ہر منفی عمل کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جانا چاہیے اور اس کے سفارتکاروں کو بھی سفارتی آداب کے د ائرے میں لانا چاہیے۔ ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دینی چاہیے اور ان تمام لوگوں کو پاکستان سے باہر نکال دینا چاہیے جو سفارت کاروں کے بھیس میں ہمارے ہاں دندناتے پھر رہے ہیں جو امریکی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے اسے ریمنڈ ڈیوس کی طرح گرفتار کیاجانا چاہیے لیکن ریمنڈ ڈیوس کی طرح رہا نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر پاکستان کی سیاسی قیادت ڈٹ جاتی اور اسے رہا نہ کیا جاتا تو آج امریکیوں کے سارے کس بل نکل چکے ہوتے۔ درحقیقت ہم آج اپنی فاش غلطیوں کا کڑوا پھل کھا رہے ہیں اور اگر ہم نے اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہ کیا ہوتا اور امریکی ڈرون طیاروں کا وہی حشر کیا ہوتا جو ایران نے کیا ہے تو آج واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرتا اور دھونس جمانے والا رویہ ترک کرچکا ہوتا۔

قومی خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ کا ناگزیر تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جو ملک امداد کو سیاسی بلیک میلنگ کے لئے استعمال کرے اس سے امداد لینی بند کر دی جائے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ہم امداد تو لے لیں اورڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیں۔ واشنگٹن جب ہمیں پیسے دیتا ہے تو یہ سمجھ لیتا ہے کہ ہم اس کے زرخرید غلام ہیں اور اسے حق حاصل ہے کہ وہ جیسا چاہے ہم سے سلوک کرے۔

اگر ہم غور کرسکیں تو ہمارے ہاں امریکیوں نے جو گل کھلائے ہیں وہ انہی امدادوں اور قرضوں کی وجہ سے کھلائے ہیں اور اگر ہم نے امریکی قرضوں اور امدادوں سے جان چھڑالی ہوتی تو آج ہماری یہ پوزیشن نہ ہوتی جو ہے۔ یہ قرضے اور امدادیں ہماری قومی خودمختاری کو روند کر رکھ دیتے ہیں اور ہمارے سیاسی اکابرین صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھی یہ بیان جاری کر دیتے ہیں کہ ہم اپنی قومی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مسلسل ڈرون حملوں کی موجودگی میں اس طرح کے بیانات مذاق بن جاتے ہیں اور لوگ ہنستے ہیں کہ یہ ہماری سیاسی قیادت کو کیا ہوگیا ہے اور وہ کون سی خودمختاری کی بات کررہی ہے۔

سچائی یہ ہے کہ ہمارے پاس عزت سے جینے کا ایک ہی آپشن ہے کہ ہم سادگی کے ساتھ جینا سیکھ لیں اور صرف اپنے وسائل پر بھروسہ کریں۔ اس سلسلے کی ابتدا اگر ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے ہو جائے تو قوم بھی سادگی اختیار کرنے میں فخر محسوس کرے گی۔

ہمیں اپنا لائف سٹائل تبدیل کرنا پڑے گا اور اس کے ذریعے ہم ایک خاموش انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت اگر لباس ، گاڑی اور کھانے پینے کے معاملات میں سادگی اختیار کرے اورقوم کو پتہ چلے کہ ان کا صدر ، وزیراعظم اور آرمی چیف بھی وہی کچھ کھاتے ہیں جو عوام کھاتے ہیں۔ قوم کی غالب اکثریت کی طرح ان کے بچے بھی پاکستانی سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ بیماری کی صورت میں بیرون ملک کے بجائے اپنے ہی ملک کے ہسپتالوں سے علاج کراتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم اپنے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی پشت پر کھڑی نہ ہو جائے۔ بس جونہی یہ مرحلہ طے ہو جائے گا تو ہماری ذلت کا سفر ختم ہو جائے گا اور ہم قوموں کی برادری میں ایک عزت دار اور باوقار قوم کے طور پر ابھرنا شروع کر دیں گے۔ اس کے سوا ہماری بقا کا اور کوئی راستہ نہیں اور اس خوبصورت سفر کی ابتدا یوں ہونی چاہیے کہ ہماری سیاسی قیادت اعلان کر دے کہ آج کے بعد پاکستان کسی ملک یا مالیاتی ادارے سے کوئی قرضہ یا امداد نہیں لے گا

About this publication