We Need To Stop This

<--

ہمیں یہ لت چھوڑنا ہوگی!

خالد احمد ـ 2 دن 18 گھنٹے پہلے شائع کی گئی امریکہ جب کبھی کسی ’دوست علاقے‘ کے خلاف جنگی منصوبہ بندی مکمل کر لیتا ہے تو وہ امریکی معیشت دانوں کے ہاتھ میں اسلحہ ساز اداروں کی خواہشات کا بگل تھما دیتا ہے اور وہ اُس علاقے کی معیشی تباہی کا راگ الاپنے لگتے ہیں! لیکن یورپی یونین کے لئے امریکی منصوبے کا اعلان جناب بل کلنٹن کی وزیر خارجہ محترمہ میریلین البرائٹ نے 2000 کے طلوع ہوتے ہی کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر کسی نے امریکہ کو دنیا کی دوسری بڑی قوت بنانے کی کوشش کی تو امریکہ دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر دے گا!

اس تناظر میں یورپی معیشت کی تباہی کی پیش گوئیوں کا آغاز، مستقبل کے یورپ کیلئے امریکی منصوبہ بندی کی تکمیل ’تمہیدی کہانی‘ کے طور پر سامنے آ گیا ہے، یہ ’کرٹن ریزر‘ بڑی آن بان کے ساتھ اور نوع بہ نوع اعدادو شمار پر مشتمل مجسمے کے بدنما خدوخال سامنے لانے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے! حتیٰ کہ مرکزی یورپین بینک کے حوالے سے، یورپی حکومتوں کیلئے وہاں سے قرض حاصل کرنے کی سہولت پر کیسینو کنٹیننٹ کی پھبتی بھی کس دی گئی ہے!

امریکی معیشت دانوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی کردار پر حاشیہ آرائی کئے بغیر سیدھی سیدھی بات کی اور یورپی یونین میں شامل ممالک پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کی تعمیر نو میں امریکی مدد کا ڈھول پیٹا ہے اور یورپ کے نظریات مخالف سوویت یونین کو الٹ کے رکھ دینے کا احسان جتاتے ہوئے پوری یورپی معیشت کے ارتقاءکا بنیادی سبب مضبوط امریکی معیشت کی ضمانت قرار دے ڈالا ہے!

دُنیا کدھر جا رہی ہے اور ہم کدھر جا رہے ہیں! امریکی وزارت دفاع نے چین کی بحریہ کے لئے 2025ءتک ایک علاقائی قوت کے طور پر ابھر آنے کی پیش گوئی کی ہے مگر اسے امریکہ کیلئے کوئی بڑا خطرہ ماننے سے انکار کر دیا ہے! البتہ سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کے ہاتھ میں وہ قلم تھما دیا ہے جسے بات گول کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے! لہذا وہ چین کی بحری قوت میں بڑھوتی کے منصوبوں کو ’علاقائی اضطراب‘ میں اضافے کے سبب کے طور پر اجاگر کرنے لگے ہیں!

ہم بھی اپنے دفاع کیلئے سرگرم ہیں اور ابھی تک ہم اپنی دفاعی قوت پر مبنی سیاست اور معیشت کا امریکی انداز اپنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے! مگر ہم اپنے دفاع کی طرف سے کبھی غافل نہیں رہے لیکن آج اپنی سرزمین پر ہر نوع کی غیر ملکی مداخلت کاری پر جس تحمل اور برداشت کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں، اس سے تو ہمیں یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے یہ متحمل برداشت ہمارے لئے ناقابل برداشت صدموں کی جنم بھومی بنتی چلی جا رہی ہے!

امریکی ہمارے لئے کیا منصوبے بنائے بیٹھے ہیں، یورپی یونین ہم سے کیا توقعات لگائے بیٹھی ہے، علاقائی قوتیں پاکستان پر کس حد تک انحصار کر رہی ہیں اور ہم پر کس حد تک اعتماد رکھتی ہیں، یہ تمام سوالات ہمیں بہت کچھ سوچنے اور بہت کچھ دیکھنے پر مجبور کر رہے ہیں! مگر سوچنا سمجھنا، دیکھنا بھالنا تو ہماری عادت ہی نہیں! ہم تو صرف احکامات لینے اور تعمیل کر دینے کے عادی بنا دیئے گئے ہیں! ہمیں یہ لت چھوڑنا ہوگی! اگر ہم واقعی اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں؟ تو!

About this publication