Will There Be War between Pakistan and the U.S.?

<--

پاکستان اور امریکی جنگ کے بادل ۔۔۔!

طیبہ ضیاء ـ 22 ستمبر ، 2011 پاکستان پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور یہ بادل دس سال پہلے ہی اپنی سمت کا تعین کر چکے ہیں۔ پہلے اسامہ بن لادن جواز تھا، اسے مارنے کا دعویٰ کیا گیا اور اب حقانی نیٹ ورک کو آڑ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان اوپر سے نیچے تک مسائل میں گھر چکا ہے مگر عوام کو ڈینگی اور کانگو سے آگے کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ حکومت تو ہے ہی پرلے درجے کی نااہل اور بے حس مگر نام نہاد اپوزیشن بھی امریکہ کے تیور نظر انداز کر رہی ہے جبکہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو سر جوڑ کر آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر حکومت نے امریکہ کے ساتھ ذاتی تعلقات بنانے کی کوشش کی کہ ہنگامی صورتحال میں وہ پاکستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو سکے اور آمروں کے عذاب سے صرف امریکہ ہی نجات دلا سکتا ہے۔ پاکستان آج اس موڑ پر پہنچا دیا گیا ہے جہاں اسے پہنچانے کی منصوبہ بندیاں برسوں پہلے کی جا چکی تھیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آئی ہوئی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور امریکی سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن کے درمیان ساڑھے تین گھنٹے پر مشتمل تفصیلی ملاقات میں ہلیری کلنٹن نے کہا کہ پاکستان کو دوغلی پالیسی ہر حال میں ترک کرنا ہو گی، اس کی یہ پالیسی جہاں اس کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے وہاں پوری عالمی برادری کا امن داﺅ پر لگا ہوا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کرنے والے عالمی برادری بشمول پاکستان کے دشمن ہیں۔ امریکی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ہلیری کلنٹن نے پاکستانی وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں اور حکومت کے اہم ذمہ دار ان کی حفاظت کر رہے ہیں، جو وار آن ٹیرر کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ پاکستان عالمی برادری کے صبر کا امتحان نہ لے۔ نیویارک میں ایشیا سوسائٹی میں پاکستان کے امریکی سفیر کیمرون منٹر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری رہائی اور اسامہ بن لادن کے خلاف اپریشن سمیت کئی مسائل کھڑے ہوئے جنہوں نے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے البتہ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے القاعدہ رہنما یونس اور نائیک کو گرفتار کیا ، اس کا مطلب ہے ابھی دونوں ملکوں میں معلومات کے تبادلے میں کوئی تعطل نہیں آیا۔کیمرون منٹر نے پاک فوج کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے تین ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوج پاک افغان سرحد پر تعینات ہے۔ وائٹ ہاﺅس کی شاباشیاں سیاسی لفاظی کے سوا کچھ نہیں، زمینی حقیقت یہی ہے کہ امریکہ چودھری ہے اور پاکستان کمّی۔ وائٹ ہاﺅس میں انسداد دہشت گردی کے سربراہ جان برینن نے ہاورڈ لاءسکول سے خطاب کے دوران کہا کہ امریکہ اپنے دفاع کے لئے کسی بھی وقت کسی بھی ملک پر حملہ کر سکتا ہے۔ اسامہ بن لادن کے خلاف اپریشن کی طرح القاعدہ کو جواز بنا کر دنیا کے کسی بھی خطے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی قانون کے تحت امریکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے ۔۔۔ افغانستان جس نے امریکہ ہی نہیں پوری عالمی برادری کے امن کے ساتھ معیشت کو داﺅ پر لگا رکھا ہے اور جہاں امریکہ دس سال سے عالمی برادری کی خوشحالی، ترقی اور امن کی جنگ میں مصروف ہے اور جس کے اتحادی پاکستان نے اس جنگ میں چالیس ہزار سے زائد جانیں گنوا دی ہیں اور جس کی پوری معیشت یہ جنگ نگل چکی ہے اگر وہاں دہشت گردی ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتی ہے تو امریکہ یا اس کے اتحادی اس خطے سے کس طرح خاموشی سے وہاں سے نکل سکتے ہیں دوسری طرف یہ بھی تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اگر اسی طرح افغانستان میں انگیج رہا تو روس کی طرح دیوالیہ ہو جائے گا۔ اب جنگ کا زمانہ نہیں رہا، اب معاشی جنگ کا دور ہے۔ قومیں ایک دوسرے کو توڑنے کے لئے اس کی معیشت کو تباہ کرتی ہیں۔ امریکہ معاشی اعتبار سے تنزل کا شکار ہے جبکہ پاکستان عروج سے پہلے ہی زوال پذیر ہو چکا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر خسارے اور حکومت پر عوامی عدم اعتماد کی وجہ سے امریکی معیشت گر کر عالمی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر چلی گئی ہے۔

امریکہ آئی ایس آئی کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ امریکی فوج کے سربرارہ ایڈمرل مولن نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی افغان جنگ میں حقانی گروپ کی مدد کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے آئی ایس آئی کو دہشت گردوں کا امدادی سلسلہ بند کرنا ہو گا۔ گزشتہ دنوں امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا بھی پاکستان کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ حقانی گروپ کے خلاف پاکستان میں اپریشن کرے ورنہ پاکستان اپنے اچھے بُرے کا ذمہ دار خود ہے۔ پاکستان کو دس سال پہلے بھی ایک دھمکی ملی تھی جس کا نتیجہ پاکستان ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“کی صورت میں بھگت رہا ہے اور نائن الیون کے دس سال بعد اب اسے دوسری دھمکی ملی ہے جس کا نتیجہ صرف ”جنگ“ دکھائی دیتا ہے۔!

About this publication