اگر امریکہ دلدار نہیں تو پھر ہم بھی وفادار نہیں
| ـ 1 دن 2 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
مصباح کوکب سالق ایم پی اے
ہر عروج کو زوال ہے اور انشاءاللہ امریکہ کا زوال بہت قریب ہے۔ یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ 143 ٹریلیئن ڈالر قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر صرف 140 بلین ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس کی معیشت بتدریج ڈوب رہی ہے لیکن ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اپنی دھونس اور بالا دستی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتا ہے اور طاقت کے زعم میں یہ بھول گیا ہے کہ جب بالا دستی اور دھونس حد سے تجاوز کر جائے تو پھر کیا ردِّ عمل ہوتا ہے؟
10/12 سال تک افغانستان میں طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود بُری طرح ناکام ہو جانے کے بعد جھنجلاہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہوئے آج ہماری سیکورٹی ایجنسی کے خلاف بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کا نیا شوشا چھوڑا ہے۔ امریکہ کا یہ طرز عمل نیا نہیں ہے، وہ اس طرح کے حیلے بہانے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ پہلے بھی کر چکا ہے۔ اب افغانستان میں تو اس کی طاقت کا بُت دھڑم سے گر پڑا ہے۔ افغانیوں نے مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیا ہے اور امریکہ کیلئے نہ جانے ماندن، نہ پائے رفتن والی صورت حال ہے۔ اسے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے کسی بہانے کی تلاش تھی اور وہ بہانہ انہوں نے حقانی نیٹ ورک سے پاکستان کی سیکورٹی ایجنسی آئی ایس آئی کے تعلق کی شکل میں تلاش کر لیا ہے حالانکہ حقانی نیٹ ورک وہ ہے جو برس ہا برس قبل سی آئی اے نے اپنے خاص مقاصد کی تکمیل کیلئے قائم کیا تھا اور جسے وہ آج تک ان کی ہر طرح سے سپورٹ بھی کر رہے ہیں اور اس سے پہلے امریکہ کبھی بھی حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے نہیں بولا۔ اب پاکستان امریکہ کی دھمکیوں میں آ کر اپنی رہی سہی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کو انشاءاللہ تعالیٰ کبھی بھی داﺅ پر نہیں لگائے گا۔ وہ پرانا دور اب گزر چکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر 35 ہزار سے زائد شہری، 5 ہزار سے زائد فوجی جوانوں کے جانی نقصان اور ہزاروں معصوم جانوں کے زخمی اور معذور ہو جانے کی وجہ سے ہماری قربا نیوں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ہماری معیشت کے اربوں ڈالر بھی اس نام نہاد جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود آج ہمیں واشنگٹن سے الٹی میٹم یہ آ رہا ہے کہ اگر مال چاہیے، جان چاہیے اور عافیت چاہیے تو اپنی توپوں کے دہانے شمالی وزیرستان پر کھول دو۔ اگر ہماری حکومتیں شروع سے ہی برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتیں تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نائن الیون سے پہلے پاکستان میں کوئی خود کش حملہ نہیں ہوا تھا۔ ڈرون طیارے بھی ہماری بستیوں کو ویران نہیں کر رہے تھے۔ ہم اربوں ڈالر کے مقروض بھی نہیں تھے۔ ہمارا پاسپورٹ بھی اتنا بے توقیر نہیں تھا، ہماری قوم بھی اتنی درماندہ نہ تھی۔ اس نام نہاد جنگ کی وجہ سے آج پاکستان وہ پاکستان نہیں رہا۔ آج ہماری ساری قربانیوں کو بھلاتے ہوئے ہمیں نازک موڑ پر کھڑا کر دیا ہے۔ اب میں سمجھتی ہوں کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ ہمارے لیے وسیع تر قومی مفادات اور اپنی آزادانہ قومی حیثیت کے تحفظ کے حوالے سے بڑے نتیجہ خیز اور تاریخ ساز فیصلے کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ پاکستان کوئی عراق نہیں ہے، اس کے پاس تو اعلانیہ ایٹم بم بھی ہے، پاکستان کے عوام متحد ہیں، ان کا عزم و حوصلہ بہت بلند ہے، انہیں تو اپنی کمزور حکومت کی بھی پرواہ نہیں ہے۔
ہماری فوج کے سپہ سالار جنرل کیانی نے جس طرح امریکہ کو جرا¿ت مندانہ پیغام دیا ہے، اس سے عوام میں مزید توانائی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ ہماری پاک فوج کے جوانوں کو ایسی ماﺅں نے جنم دیا ہے جو بیٹوں کو فوج میں بھیج کر اپنی زندگی میں ان کی شہادت کی تمنا کرتی ہیں جبکہ امریکی فوجی کی ماں اپنے بیٹوں کو میدان جنگ کی طرف رخصت کرتے ہوئے ان کیلئے زندگی کی دعا کرتی ہیں۔ ہماری پوری قوم پاک فوج کو سیلوٹ کرتی ہے۔
آج اس نازک وقت پر امریکیوں کے زہریلے پراپیگنڈہ کوہماری سیاسی قیادت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا ہو گا بلکہ ہر ایک کو ہی سیاسی، دفاعی اور عوامی تینوں محاذوں پر ہر قسم کے حالات کے مقابلے کیلئے مکمل تیاری کی حالت میں رہنا ہو گا۔ سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر بصیرت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ تو اگر دلدار نہیں تو پھر ہم بھی تیرے وفادار نہیں!
oo
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.