Get Rid of American Influence

<--

امریکہ اور اس کے غلاموں سے وقتِنجات

| ـ 1 دن 17 گھنٹے پہلے شائع کی گئی

ہم پاکستانی عذاب میں مبتلا،مصائب کا شکار اور کرب و الم کی سولی پر چڑھے ہیں تو اس کا سبب پاکستان میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیاں اور اس کے غلاموں کی حکمرانی ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے امریکی پالیسیوں اور اس کے غلام حکمرانوں سے نجات ضروری ہی نہیں،ناگزیر بھی ہے۔دونوں سے نجات جس قدر جلد ممکن ہو، ہوجانی چاہئے ورنہ قوم کے مقدر میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں آئیگا۔ حکومت نے ساڑھے تین سال مکمل کرلیے۔ اس کے اعمال کے لمحے لمحے کا حساب موجود ہے۔ اس میں سے محض دس منٹ نکال کر دکھا دیجئے کہ اس حکومت نے انسانیت کی خدمت کی ہو۔انسانوں کی خدمت کی ہو۔ پاکستان کی خدمت کی ہو۔ پاکستانیوں کی خدمت کی ہو۔ان کے ایجنڈے میں قومی و عوامی خدمت شامل ہی نہیں۔ ان کا ایجنڈہ ہی اور ہے۔قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ خزانہ خالی، ٹیکسوں کی بھر مار، مہنگائی کا طوفان، بجلی موجود نہ گیس، ذاتی اکاﺅنٹس بھرے جارہے ہیں۔سات نسلیں سونے کے لقمے بھی کھاتی رہیں تو دولت ختم ہونے میں نہ آئے۔ پھر بھی بس نہیں۔ مزید حرص اور طمع، عوام کے منہ سے روکھا سوکھا نوالہ بھی اچکنے کی پھرتیاں۔ لوٹ مار پہ ہی اکتفا کیا ہوتا تو قوم کو کسی قدر قرار آجاتا جہاںتو قومی خود مختاری کو بھی تیاگ دیا گیا۔ امریکی پالیسیوں کے نفاذ کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ایسی لیڈر شپ کبھی دیکھی نہ سنی۔ قیادتیں قوموں کو لیڈ کرتی ہیں۔ ہماری قیادت فوج کی طرف دیکھتی ہے، امریکہ کے خلاف جنرل کیانی گرجتے ہیں تو وزیراعظم گیلانی ان کی تان پر برستے ہیں۔ کیانی نرم لہجے میں بات کرتے ہیں وزیراعظم امریکہ کے آگے پیچھے بچھے جاتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے امریکیوں نے الزامات اور دھمکیوں کی یلغار کی تو فوجی قیادت نے سخت لب و لہجہ اختیار کیا، وزیراعظم گیلانی نے دہلی پر جھنڈا لہرانے اور لنکا ڈھانے کے انداز میں تمام سیاستدانوں کو فون کیا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو امریکہ سے فوری وطن واپسی کی کال دی لیکن اگلے ہی لمحے فیصلہ واپس لے لیا۔

امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ قوم و ملک ہر قسم کے بحران مسلط ہیں۔ اس پر ہمارے حکمرانوں کا ماتھا کبھی شکن آلود ہوا نہ عرقِ ندامت کی لکیر نمودار ہوئی۔ان کے سات آٹھ لاکھ کے سوٹ پر سلوٹ پڑی نہ ٹائی ڈھیلی ہوئی۔

ساڑھے تین سال میں آخر اس حکومت نے کونسا کام کیا جس کی تحسین کی جائے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ اس حکومت کا دیا ہوا نیا تحفہ ہے۔2کھرب روپے کے رینٹل پاور پلانٹ کس کس کے پیٹ میں اتر گئے؟۔ کوئی حساب کتاب نہیں۔

کسی کو تو قدم بڑھانا ہوگا۔جمہوریت بڑی اہم ہے لیکن جمہوریت کو ناسور بنانے والے قابل معافی ہیں؟پارلیمنٹ کی بالادستی کے زمزمے الاپنے والوں کو کیا پارلیمنٹ کی ڈرون حملوں کے خلاف قراردادیں بھول گئی ہیں۔ ان قرار دادوں کی موجودگی کے باوجود ڈرون حملے جاری ہیں۔ ایسی بے توقیری پر پارلیمنٹرین خاموش ہیں۔ جرنیل کئی بار کہہ چکے کہ اب ایسی کارروائی ہوئی تو جواب دیں گے۔کب؟۔ اے پی سی مزید ایک سو بلا لیں ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ ٹھوس فارن پالیسی بنائیں ۔ امریکی الزامات اور دھمکیوں پر کڑی میں اُبال اور چائے کی پیالی میں طوفان جیسے بیانات پالیسی نہیں۔ اب اس روش کو چھوڑنا ہوگا۔ سیاسی قیادت تو امریکہ کے سامنے ہتھیار پھینک چکی۔ فوج سے امید ہے سرنڈر نہیں کرے گی۔ قوم ساتھ ہے فوج عوامی امنگوں کے مطابق پالیسی ترتیب دے۔اس کا تو ماٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔دشمن کے خلاف جہاد۔اب جہاد کا وقت آنہیں گیا؟۔ امریکہ کھلا اعلان جنگ کر رہا ہے۔اگر وہ اپنے قدم آگے بڑھاتا ہے تو پاک فوج بھی پیش قدمی کرے۔

About this publication