امریکہ میں آنیاں جانیاں !
| ـ 12 اکتوبر ، 2011
پاکستان سے دینی پیشواﺅں، علمائ، سکالروں، پیروں کی آئے روز امریکہ ”آنیاں جانیاں“ دیکھ کر حیرانی و پریشانی ہوتی ہے۔ حیرانی اس بات پر کہ اس ملک میں وہی داخل ہو سکتا ہے جو امریکہ کی ”گڈ بک“ میں ہو اور پریشانی اس بات کی ہے کہ پاکستان گمراہی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور یہ لوگ امریکہ کے مسلمانوں کو نیک بنانے چلے آتے ہیں۔ پاکستانی شہری ہو اور وہ بھی مذہبی پس منظر رکھتا ہو، اسے باآسانی امریکہ کا ویزہ مل جائے؟ حیرانی و پریشانی تشویش میں بدل جاتی ہے۔ کسی مذہبی جماعت سے وابستہ پیشواءکو امریکہ کا ویزہ ملے تو سمجھ جاﺅ کہ امریکہ اس شخص پر مہربان ہے وگرنہ امریکنوں کا مسلمانوں کے ساتھ ”خدا واسطے کا ویر“ ہے۔ تبلیغ کے لئے امریکہ تشریف لانے والے مبلغین اور دینی پیشواﺅں سے یہاں کے لوگ پوچھتے ہیں کہ ”کیا تمہارے پاکستان کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں؟ اسلام کی زیادہ پاکستان میں ضرورت ہے۔ امریکہ کے مسلمان بہت بہتر ہیں، یہاں منافقین کی تعداد کم ہے، امریکہ آنیاں جانیاں کرنے والے مذہب کے ٹھیکیدار پہلے اپنے ملک کے لوگوں کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمائیں۔ امریکہ کو مذہبی طبقات سے تحفظات ہیں اس کے باوجود ایسے لوگوں کو ویزہ مل جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جو پاکستانیوں کو اچھا نہ بنا سکے وہ امریکہ کے مسلمانوں کو اچھا بنانے چلے آتے ہیں۔ پاکستان کے لوگ بشمول مذہبی طبقہ، نہ پاکستان کے قانون کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی قرآن و حدیث پر عمل کرتے ہیں مگر امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کو امریکہ کے قوانین کا احترام کرنے اور امریکی نظام کا حصہ بننے کا درس دیتے ہیں، امریکہ کے ساتھ وفاداری کی تاکید کرتے ہیں۔ امریکہ کے مسلمان جس صبر و تحمل اور حلمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ پاکستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے مگر اپنے ملک و قوم کی حالت درست کرنے کی بجائے امریکہ کے پھیرے لگائے جاتے ہیں۔ امریکہ کی اسلام دشمن کارروائیاں عیاں ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک امریکی کمپنی نے دفتری اوقات کے دوران نماز پڑھنے پر 34 ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا۔ بیشتر ملازمین تیس سال سے اس کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ کمپنی نے الزام عائد کیاکہ ملازمین کو وقت کی پابندی قائم نہ رکھنے پر ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے جبکہ مسلمان ملازمین کا کہنا ہے کہ آٹھ گھنٹے کی ملازمت کے دوران دس دس منٹ کے دو قفے دئیے جاتے ہیں جس کے دوران وہ نماز ادا کرتے ہیں۔ ملازمین نے احتجاج کیا اور ملازمت پر بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملازمت سے نکالا جانا آزادی مذہب کے خلاف ہے…. پاکستان کے وہ علماءاور دیندار پیشواءجنہیں امریکی ویزے جاری کئے جاتے ہیں، امریکہ کی سرزمین پر امریکہ کے خلاف بولنے کی جسارت نہیں کر سکتے۔ امریکہ کے مسلمانوں کو ”نیک پروین“ بن کر رہنے کے وعظ دینے والوں کے پیش نظر امریکہ میں اپنا داخلہ جاری رکھنا ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد قاتل کی حمایت میں جلوس نکالے گئے، جسے امریکہ نے مانیٹر کیا اور قانون بنا دیا کہ جو افراد اس جلوس کا حصہ بنے یا اس فعل کی حمایت کی اُن کا شمار امریکہ کی بلیک لسٹ میں ہو گا، اس کے علاوہ امریکہ مخالف بیانات اور خطبات دینے والوں پر بھی کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے دوروں پر آنے والے علماءامریکہ کے لئے سافٹ لہجہ رکھتے ہیں۔ امریکہ میںان کے بیانات اور انٹرویوز میں امریکہ کی مثبت تصویر کشی کی جاتی ہے۔ یہ وہ علمائ، پیشواءاور سکالر ہیں جو اپنے ملکوں میں یہود و نصاریٰ کے خلاف بڑھ چڑھ کر تقاریر کیا کرتے تھے لیکن امریکہ کے تیور بدلتے ہی ان کا امریکہ مخالف رویہ بھی تبدیل ہو گیا۔ اب امریکہ کے حق میں میٹھے میٹھے بیان دیتے ہیں۔ پاکستا نی چینل کے ایک نوجوان ”پیر صاحب“ بھی ڈالروں کی زبان میں بولتے ہیں۔ ان لوگوں کو علم ہے کہ امریکہ آنا ہے تو امریکہ کی مخالفت ترک کرنا ہو گی۔ ”یہود و نصاریٰ پر خدا کی لعنت“ کا وتیرہ بدلنا ہو گا اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جو اپنی شخصیت یا اپنی جماعت کو مضبوط کرنا اور ڈالروں میں نذرانہ اکٹھا کرنا چاہتا ہو۔ امریکہ کی زمین پر کھڑا ہو کر یہود و نصاریٰ کے خلاف کھل کر بولنے کی جرات نہیں، مبادا مستقبل میں امریکہ یاترا سے محروم کر دیا جائے!
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.