Why Hate America?

 .
Posted on November 18, 2011.

<--

امریکہ سے نفرت کیوں؟

ـ 2 گھنٹے 47 منٹ پہلے شائع کی گئی محمد شعیب مرزا

کسی سے محبت یا نفرت کرنے کے بہت سے جواز ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم کسی سے محض اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ اس کا رویہ یا سلوک دوسروں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا لیکن زیادہ تر ہم کسی سے نفرت اس لئے کرتے ہیں کہ اس کا رویہ ہمارے ساتھ درست نہیں ہوتا۔ امریکہ کا معاملہ دونوں حوالوں سے یکساں ہے۔ خود امریکہ کا وجود اور اس کی پالیسیاں ایسی نہیں کہ اس کے لئے دل میں کوئی عزت و احترام پیدا ہو۔ ویت نام سے لے کر اسلامی دنیا تک اس کی جارحیت اور بربریت کی شرمناک مثالیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ جھوٹے الزامات لگا کر اور غلط رپورٹیں پیش کر کے عراق کو تباہ و برباد کیا گیا۔ روس کی شکست کے بعد افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ امریکہ اور اتحادی افواج کے ہاتھ لاکھوں معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

امریکہ نے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے مدمقابل سپرپاور روس کے خلاف مسلمانوں کو مسلح کیا۔ ان کو تربیت فراہم کی اور ان کے ذریعے روس کو شکست اور تقسیم سے دوچار کیا۔ پھر یورپ اور غیرمسلم ممالک کو اس خوف میں مبتلا کر کے اپنے ساتھ ملایا کہ اگر ان تربیت یافتہ مسلح مسلمانوں کا خاتمہ نہ کیا تو یہ روس کی طرح بہت جلد امریکہ اور غیرمسلم ممالک کوبھی ہزیمت و شکست سے دوچار کر کے پوری دنیا پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ لہٰذا 9/11کا ڈرامہ رچا کر کل کے مجاہدین اور حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا گیا۔ یہ جنگ دراصل مسلم دنیا کے خلاف تھی اور اسی کے تحت مسلم ممالک کو انتشار اور عدم استحکام کا شکار کیا جا رہا ہے۔

یہ تو تھا مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کے کردار کا ہلکا سا اشارہ۔ آئیے اب امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور رویے اور سرسری جائزہ لیتے ہیں۔

امریکہ پاکستان سے دوستی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی ہر موقع پر حمایت کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ جوہری معاہدے کرتا ہے۔ اس کے ساتھ جنگی مشقیں کرتا ہے۔ اسے اپنا سٹریٹجک پارٹنر بناتا ہے۔ افغانستان میں اسی کے اثرورسوخ کو بڑھاتا اور پاکستان میں اس کی تخریبی کارروائیوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ حالانکہ عالمی اصول ہے کہ دوست کا دوست اپنا دوست اور دوست کا دشمن اپنا دشمن لیکن اس حوالے سے بھی امریکہ نے پاکستان کے ساتھ منافقانہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔

2مئی 2011ء کو امریکہ نے تمام عالمی، پاکستانی اور اخلاقی قوانین، اصولوں اور پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فضائی جارحیت کی اور ایبٹ آباد میں فوجی کارروائی کی۔ یہ پاکستان کی آزادی و خودمختاری پر کھلا حملہ تھا جس نے امریکہ کی دوستی کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن ہمیشہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر الزامات لگاتے اور مختلف قسم کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل بھی انہوں نے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور انہیں ہدف تنقید بنایا۔ پاکستانی فوج اور حکومت کو چاہئے کہ وہ امریکہ کے ناجائز مطالبات اور دھمکیوں کو امریکی فوج کے سابق سربراہ کے نام پر بھی نہ لکھے۔

پاکستان کی تمام تر قربانیوں اور جانی و مالی نقصان کے باوجود حال ہی میں امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان کی تمام قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں کے امریکہ کے مخالف عناصر سے تعلقات ہیں۔ پاکستان نے امریکی مفادات کا خیال نہ رکھا تو تعلقات متاثر ہوں گے جبکہ امریکی صدر کے مشیر نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی کو سخت پیغام دیا ہے۔

یہ ہے امریکہ کی پاکستان سے دوستی کی حقیقت لیکن اس کے باوجود ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ”پاکستان میں امریکہ مخالف پروپیگنڈے پر سخت تشویش ہے۔“

امریکہ…. ہر مشکل گھڑی میں پاکستان سے آنکھیں پھیر لے۔

٭ ہمارے شہریوں کو اغوا کر کے اپنے عقوبت خانون میں بدترین تشدد کرے۔

٭ اپنے ملک میں مسلمانوں خاص طور پر پاکستانیوں سے توہین آمیز سلوک کرے۔

٭ اس کے فوجی قرآن پاک اور پاکستان کی بیٹی کی بےحرمتی کریں۔

٭ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کوقتل کروائے۔

٭ ہر موقع پر دھمکیاں دے اور دھونس جمائے۔

٭ ہمارے نقصان کے ازالے اور امداد دینے کے بجائے ہم پر مختلف پابندیاں عائد کرے۔

٭ اس کے جاسوس پاکستان میں قتل و غارت کرتے پھریں۔

٭ پاکستان کے ازالی دشمن بھارت کی حمایت و امداد کرے۔

٭ اسرائیل اور بھارت سے مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں اور کارروائیاں کرے۔

٭ پاکستان کی فضائی حدود اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی کارروائی کر کے پاکستان کی خودمختاری کو چیلج کرے۔

تو پھر امریکہ ہی بتائے کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد پاکستانی عوام امریکہ سے نفرت نہ کریں تو کیا اس کے قصیدے پڑھیں؟

About this publication