America Threatens Pakistan, Iran and Our Security … Is It Not Time forthe Muslim Community’s Awakening?

<--

امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں میں تعطل اسکی کمزوری نہیں‘ یہ جان لیوا مشین دوبارہ حرکت میں آسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ نے امریکی سی آئی اے اور دوسرے حکام کے حوالے سے اپنی گزشتہ روز کی اشاعت میں ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں میں تعطل اور پاکستان کی ناکافی کوششوں نے شدت پسندوں کو پھر منظم ہونے کا موقع فراہم کیا ہے اور پاکستان میں گزشتہ دو ماہ سے ڈرون حملے نہ ہونے کے باعث القاعدہ اور دوسرے پاکستانی عسکریت پسند گروپوں کی ہمت بڑھی ہے جس کا نتیجہ پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافے اور افغانستان میں اتحادی افواج پر کارروائیوں کے خطرے کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عسکریت پسند پاکستان اور امریکہ کے مابین کشیدگی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تاہم سی آئی اے کو توقع ہے کہ صورتحال کو بدترین ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں 64 ڈرون حملے ہوئے جبکہ 2010ءمیں پاکستان میں ہونیوالے ڈرون حملوں کی تعداد 117 تھی۔

دنیا کی تھانیداری کا کردار ازخود سنبھالنے والے امریکہ کو صرف مسلم ممالک ہی اپنے جارحانہ‘ توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنتے نظر آتے ہیں اس لئے وہ آئے روز کسی نہ کسی حیلے بہانے سے کسی نہ کسی مسلم ریاست کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا اور اسکی سلامتی کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ اس وقت امریکہ جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان ہی نہیں‘ برادر اسلامی ملک ایران کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے اور اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوششیں امریکہ سے برداشت نہیں ہو رہیں۔ گزشتہ روز بھی امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش کی تو امریکہ اس کا بھرپور جواب دیگا اور آبنائے ہرمز کو طاقت کے بل بوتے پر دوبارہ کھول دیگا۔ پینٹا کے بقول ایران کا یہ اقدام ریڈلائن عبور کرنے کے مترادف ہو گا۔ پینٹا ہی نہیں‘ امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن نے بھی ایران کو یہ باور کرانا ضروری سمجھا ہے کہ وہ اپنی ایٹمی صلاحیت کو ایٹمی ہتھیار بنانے کیلئے بروئے کار لائے گا تو اسے زبردستی اس کام سے روک دیا جائیگا۔

اس وقت جنوبی ایشیائ‘ وسطی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر خطوں میں کوئی بھی مسلم ریاست ایسی نہیں جو انسانی حقوق اور امن و سلامتی کے نام نہاد چیمپئن امریکہ کی جنونیت اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم سے محفوظ ہو اور انسانیت کیخلاف اسکے جرائم کی زد میں نہ آئی ہو۔ کہیں وہ براہ راست کسی مسلم ملک کی سلامتی کو چیلنج کرتا ہے اور کہیں وہ اپنے کسی طفیلی کی سرپرستی کرکے اس سے اپنے جنونی عزائم کی تکمیل کراتا ہے۔ فلسطین اور لبنان میں امریکی بالشتیئے اسرائیل نے عرصہ دراز سے خلفشار برپا کیا ہوا ہے جو فلسطین کی آزادی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔ عرب ریاستوں تیونس‘ الجزائر‘ مصر‘ لیبیا میں حکومت مخالف خونیں تحریکوں کو بھی امریکی سرپرستی میں فروغ حاصل ہوا جہاں کی آمریتوں کا تختہ الٹانے کے بعد امریکی من مرضی کا نظام مسلط کرنے کی کوششیں بدستور جاری ہیں۔ خود ساختہ نائن الیون کی آڑ میں امریکہ نے عراق اور افغانستان کو بھی تہس نہس کردیا‘ عراق میں دس سال پر محیط جارحیت کے بعد اب امریکی افواج نے وہاں سے انخلاءکیا ہے مگر اب بھی عراق میں امریکی عمل دخل برقرار رکھنے کی سازشیں جاری ہیں جبکہ افغانستان میں امریکی نیٹو افواج کے 2014ءتک انخلاءکا فیصلہ کرنے کے باوجود امریکہ کی وہاں مستقل قیام کی منصوبہ بندی چل رہی ہے اور اسی تناظر میں پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا گیا ہے جس کے سابق جرنیلی اور موجودہ سول جمہوری حکمرانوں کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر اسکی دھرتی کو ادھیڑا گیا جبکہ اسکے ڈرون حملوں اور اسکے ایماءپر جاری فوجی اپریشن اور اسکے ردعمل میں ہونیوالے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میںپاکستان سیکورٹی فورسز کے چھ ہزار کے قریب ارکان سمیت اب تک چالیس ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ملکی معیشت کو امریکی دست برد سے پہنچنے والا 70 ارب ڈالر کا نقصان اسکے علاوہ ہے۔

اس امریکی ننگی دہشت گردی سے عاجز آکر ہی پاکستان کی حکومتی اور عسکری قیادتوں نے امریکہ کے ساتھ تعاون کے معاملہ میں اپنی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے اسکے جارحانہ عزائم کا توڑ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو ہیلی کاپٹروں کے حملوں کے بعد نیٹو کی سپلائی روک کر‘ شمسی ایئربیس خالی کراکے اور بون کانفرنس میں شریک نہ ہو کر پاکستان کی جانب سے امریکہ کو سخت پیغام دیا گیا اور اسے یہ بھی باور کرادیا گیا کہ اب پاکستان کی دھرتی پر اسکے ڈرون حملے بھی برداشت نہیں کئے جائینگے۔ نتیجتاً امریکہ نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے ڈرون حملوں کا سلسلہ روک دیا جس کے ہمارے لئے مثبت اثرات خودکش حملوں کا سلسلہ رک جانے کی صورت میں برآمد ہوئے ہیں۔ تاہم بچھو کی طرح ڈنک مارنے کی عادت سے مجبور امریکہ اب پھر پیچ و تاب کھاتا نظرآرہا ہے اور اپنی بے چین روح کی تشفی کیلئے وہ پاکستان ہی نہیں‘ ایران کو بھی دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلے اس نے ایران پر یورپی یونین سے اقتصادی پابندیاں لگوانے کی دھمکی دی جس کے جواب میں ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی جس کے ذریعے سے دنیا کے 20 فیصد تیل کی سپلائی رک سکتی ہے چنانچہ اب امریکہ طاقت کے زور پر آبنائے ہرمز کو دوبارہ کھولنے کی ہی دھمکی نہیں دے رہا‘ ایران کی ایٹمی صلاحیتوں کے حصول کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے کے جنونی عزائم کا اظہار کر رہا ہے جبکہ قومی غیرت کے جذبے سے سرشار ایرانی قیادت اسکی کسی دھمکی اور کسی حربے سے مرعوب نہیں ہو رہی اور جواباً امریکہ کو اس سے بھی زیادہ سخت لہجے میں دھمکی دی جاتی ہے‘ نتیجتاً امریکہ کو آج تک ایران کیخلاف عراق‘ افغانستان اور پاکستان جیسی جارحیت کرنے کی جرات نہیں ہوئی جبکہ ایران جاسوسی کےلئے آنےوالے امریکی ڈرون کو گرا کر بھی اسکے جارحانہ عزائم کے غبارے سے ہوا نکال چکا ہے۔ اپنے لئے کسی بھی ”ریڈلائن“ سے بے نیاز امریکہ تو جارحیت کا پیغام دینے والا ہر حربہ اختیار کرکے بھی ایران سے اپنے تباہ شدہ ڈرون کا ملبہ حاصل نہیں کر پایا‘ وہ آبنائے ہرمز بند ہونے کی صورت میں بھی ایران کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا کیونکہ ایرانی قوم اپنے باہمت صدر محمود احمدی نژاد کی قیادت میں ہر امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے پرعزم ہے۔

اگر ہماری حکومتی اور عسکری قیادتیں بھی کسی امریکی دھمکی سے مرعوب ہونے کے بجائے ملکی اور قومی سلامتی کی خاطر ایران کی طرح امریکہ کے سامنے ڈٹ جائیں اور آئندہ کوئی بھی امریکی ڈرون یا حملے کی نیت سے کوئی بھی گن شپ ہیلی کاپٹر پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو تو اسے وہیں پر گرا دیا جائے اور ایران ہی کی طرح اسکے ملبے تک بھی امریکہ کو رسائی نہ دی جائے۔ اس سے یقیناً امریکہ کے ہوش ٹھکانے آئینگے اور دنیا میں اسکی برتری کا ازخود زعم بھی ٹوٹ جائیگا۔ حالیہ امریکی دھمکی کے بعد تو اب ضروری ہو گیا ہے کہ قومی دفاعی سلامتی کمیٹی میں امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کے معاملہ میں جو بھی فیصلہ کیا گیا ہے‘ اس کا فی الفور اعلان کرکے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے۔ نیٹو کی سپلائی زمینی راستے کے ساتھ ساتھ فضائی راستے سے بھی بند کردی جائے‘ امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کی جانب سے یہاں پھیلایا گیا جاسوسی کا نیٹ ورک سمیٹ کر امریکہ کے حوالے کر دیا جائے اور واشنگٹن انتظامیہ کو واضح اور ٹھوس پیغام دیا جائے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور ہماری سلامتی سے متعلق کسی معاملے میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرے ورنہ ہم اپنی ایٹمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس کا سارا نشہ ہرن کر دینگے۔ اگر خطے کے تمام مسلم ممالک متحد ہو کر اور مشترکہ حکمت عملی کے تحت امریکی جارحانہ‘ توسیع پسندانہ عزائم کا جواب دینے کا سلسلہ شروع کریں تو اس بدمست ہاتھی کو آئندہ کسی مسلم ملک کے معاملات میں مداخلت کی جرات نہ ہو۔ اس حوالے سے کیا یہ مسلم امہ کی بیداری کا وقت نہیں ہے؟

تھرکول سے استفادہ میں تاخیر نہ کی جائے

ایٹمی سائنس دان اور تھرکول پراجیکٹ کے سربراہ ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے نوائے وقت کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران پر قابو پانے کیلئے تھر کے کوئلے سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ملکی ترقیاتی اور معاشرتی خوشحالی کیلئے انرجی کا وافر مقدار میں اور سستا ہونا ضروری ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ نہ بجلی ہے‘ نہ گیس‘ جس کی وجہ سے معیشت ڈوب رہی ہے اور معاشرہ بری طرح بیروزگاری کی لپیٹ میں ہے۔ حکومت کی طرف سے اصلاح احوال کی بھی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ حالانکہ پاکستان میں وسائل کی کمی ہے‘ نہ ذہین اور ہنرمند افرادی قوت کی۔ ہر بحران کے ذمہ دار موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں ایک اچھا کام ہو گیا کہ انہوں نے ڈاکٹر ثمرمبارک مند کو تھرکول پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کردیا جو دل و جان سے اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ آج تھرمل پاور پراجیکٹس سے بیس روپے یونٹ تک بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ تھرکول سے نہ صرف 3 سے چار روپے یونٹ بجلی دستیاب ہو گی بلکہ اسی کوئلہ سے پاکستان کی گیس اور ڈیزل کی ضروریات بھی پوری ہو سکیں گی۔ ہم نے اپنے وسائل غیروں کی جھولی میں ڈال کر شدید نقصان اٹھایا ہے۔ یہ کمپنیاں کبھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان انرجی کے معاملات میں خودکفیل ہو۔ کچھ مفاد پرست سیاست دان شاید تھرکول میں سرمایہ کاری کیلئے غیرملکی کمپنی کو یہاں داخل کر دیں‘ یہ نہ صرف قوم کے حقوق پر ڈاکہ بلکہ ملک کو انرجی کے معاملہ پر غیروں کا دست نگر رکھنے کی سازش بھی ہو گی۔ ڈاکٹر ثمرمبارک مند کی سربراہی میں صحرا میں کوئلہ سے بجلی اور گیس کی پیداوار کا کامیاب تجربہ کرلیا گیا ہے‘ ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے بقول تھرکول سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی جلد سسٹم میں آجائیگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گیس اور بجلی کی قلت سے جلد از جلد نجات کیلئے حکومت ڈاکٹر ثمرمبارک مند کو مطلوبہ وسائل فراہم کرے تاکہ وہ جنگی بنیادوں پر اپنے پراجیکٹس مکمل کر سکیں۔

وزیر اعظم کا ”دھڑلے دار“ بیان

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کی کرسی پر دھڑلے سے بیٹھیں گے، چار سال سے جاری سازشیں ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں۔ عوام اور اتحادیوں کی وجہ سے جمہوریت برقرار ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گیلانی صاحب وزیر اعظم کی کرسی پر دھڑلے سے بیٹھیں گے اور چار سالہ سازشیں بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکیں، لیکن انہوں نے مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، کیونکہ جب کوئی اقتدار کی کرسی پر جو کہ ”بڑی مضبوط“ ہوتی ہے، مسلسل بیٹھا رہے تو اسے بھلا کوئی سازش تو نہیں اٹھا سکتی اور اسکے بال بھی پورے کے پورے رہتے ہیں، اصل بات تو یہ ہے کہ اس چار سالہ نشست نے اور اس کرسی نے ملک و قوم کو لاحق بے شمار مسائل کے حل میں کتنا کردار ادا کیا اور کس قدر کامیابی حاصل کی، وہ اپنے کسی بیان میں یہ جائزہ بھی پیش کریں، باقی کس کی جرات ہے کہ مقتدر اعلیٰ کے نیچے سے کرسی کھینچ سکے، مگر ایک کرسی زمینوں آسمانوں سے بھی وسیع تر ہے، جسکی زد میں ساری کرسیاں ہیں، اس لیے کرسی کے حقوق پورا کرنا ہی دراصل کرسی پر بیٹھنے کی اہلیت ہے، چار سالوں میں سازشوں کا تو علم نہیں لیکن محرومیوں، غفلتوں ،نااہلیوں کا ضرور پتہ ہے، وگر نہ آج ملک میں یوں بیس بیس گھنٹے بجلی تو غائب نہ رہتی، اب تو اکثر عرصہ اقتدار گزر گیا، اب اگر جاتے جاتے جھلکی دکھا بھی دینگے تو لوگ چار سالوں کی کٹھنائیوں کو تو بھول نہ پائیں گے، ملک میں جمہوریت واقعتا موجود ہے، مگر صرف یہی تو ایک فریضہ نہیں، جمہوری تقاضے بھی ہوتے ہیں، جن کی تکمیل کیلئے جمہور عوام نے ان کو ووٹ دیئے۔ وہ یہ فریضہ نبھائیں تو انکی کرسی کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا ورنہ انکی پارٹی کے بانی چیئرمین اپنی کرسی مضبوط ہونے کا دعویٰ کرتے کرتے تختہ دار تک جا پہنچے تھے ۔

ترکی کی طرح پاکستان بھی سابق آمر کو کیفرکردار تک پہنچائے

ترکی کی حکومت کیخلاف بغاوت کرنے کے الزام میں سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی سٹاف سمیت 139 جرنیل گرفتار کرلئے گئے جبکہ امریکہ نے ترک حکومت کو جنرل ایلکر باسیگ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جمہوریت دشمن اور آئین کو پامال کرنےوالے ترک جرنیلوں کو سزا دینے پر جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ترکی میں فوج کا طوطی بولتا تھا‘ جسے جمہوریت پسند سیاست دانوں نے طویل جدوجہد کے بعد کارنر کیا۔ ترکی میں آج دنیا کی بہترین حکومت عوام کی خدمت کر رہی ہے اور اپنے آئین اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کے باعث امریکہ کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے جسکے باعث امریکہ جنرل ایلکر کےساتھ بہتر سلوک کے مشورہ دے رہا ہے۔ امریکی آشیرباد سے پاکستان میں بھی چار مرتبہ جمہوریت پہ شب خون مارا گیا‘ توپ تفنگ کے اپریشنز کرکے لہو کی فصلیں بوئی گئیں۔ سابق آمر پرویز مشرف نے دو مرتبہ آئین کو توڑا‘ اسکے سیاہ کارناموں کی فہرست طویل تر ہے‘ آج پھریہ پاکستان دشمن اسرائیل اور بھارت کے سہارے عوام کو بیوقوف بنانے پاکستان آنے کی تگ و دو میں ہے۔ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سابق آمر کو آرٹیکل چھ کے تحت بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کرکے قانونی کارروائی کریں یقیناً جب ایک آمر کو قانون کےمطابق سزا مل جائےگی تو آئندہ کوئی بھی جارحیت کرنے کی سوچے گا نہیں۔ جرنیلی آمریت نے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا‘ موجودہ حالات میں جتنے بھی بحران ہیں‘ اسکی ذمہ داری سابق آمر جرنیل مشرف پر عائد ہوتی ہے۔ گزشتہ روز مشرف نے 27 سے 30 جنوری تک کراچی پہنچنے کا اعلان کیا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اسے واپس آتے ہی گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچائے۔ ایک آمر اگر قانون کے مطابق پھانسی کے پھندے تک پہنچ گیا تو جمہوریت بہتر سے بہتر انداز میں چلے گی اور اسکی بدولت ملک مضبوط ہو گا

About this publication