سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین نے وزارت دفاع میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہیں تاہم پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ امریکہ دوسرے ممالک کی ایجنسیوں کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔تاہم اس نے پاکستان میں موجود سی آئی اے کے ایجنٹوں کی تفصیل پر مبنی مکمل فہرست دی ہے۔امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات باہمی مفاد میں تازہ سطح پر تشکیل دئیے گئے لیکن پاکستان کے ساتھ امریکی لہجے اور روئیے میںتبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
سیکرٹری دفاع نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے جن حقائق سے پردہ اٹھایا میڈیا میں اسے چونکا دینے والے انکشافات سے تعبیر کیاجارہا ہے مگر ان میں سے اکثر حقائق سے قوم کسی نہ کسی طور آگاہی رکھتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں،امریکی سپر پاور کی قیادت میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کو باقاعدہ پروان چڑھایا جارہا ہے۔پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کی بنیاد رکھنے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے راجہ بازار راولپنڈی میں کسنجر کا خط لہراتے وقت اعلان کیا تھا کہ پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کے بدلے انہیں عبرت کا نشان بنانے کی ا مریکی دھمکی تحفے میں موصول ہوئی۔نواز شریف کی حکومت کے گرائے جانے کی امریکہ نے مخالفت اس لئے نہ کی کہ وہ ایٹمی دھماکوں کے بدلے ڈالرز کی گٹھڑی اٹھانے پر آمادہ نہیں تھے۔امریکہ اور یورپ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف منافقانہ اور دوغلی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔جہاں بھارت کے ایٹمی طاقت بننے اور اسرائیل کے نیو کلیئر پروگرام کو نہ صرف برداشت کیاجاتا ہے بلکہ بھارت کےساتھ سول نیو کلیئر معاہدہ کرکے اس کے پروگرام کوتسلیم کرنے کے علاوہ اسے عالمی ایٹمی کلب کارکن بننے کا موقع بھی فراہم کیا گیا ہے ۔جب بھارت نے مئی 1974 کو پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو کسی عالمی طاقت کے ماتھے پر شکن بھی نہ پڑی پھر 1998 میں جب اس نے ایٹمی دھماکوں کی سیریل مکمل کی تب بھی صرف لفظوں کی حد تک معمولی سا احتجاج کیا گیا اس کے برعکس جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں پاکستان نے وہی اقدام کیا تویوں لگا جیسے قیامت برپا ہوگئی ہے۔جہاں پاکستان کیلئے اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونا ایک اعزاز ہے، وہیں امریکی قیادت اور مغربی ممالک کیلئے یہ شدید پریشانی کا باعث ہے۔ اس کے برعکس اسرائیلی ایٹمی پروگرام جو فلسطینی ریاست پر مزید ظلم ڈھانے کیلئے ایک اور آلہ ہے،امریکی مدد اور تعاون کا بھرپور فائدہ اٹھاتا نظر آتا ہے۔ پاکستان سے اگر سول ٹیکنالوجی کا معاہدہ کرنے میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ نیو کلیئرنان پرولی فریشن ٹریٹی پر پاکستان کے دستخط موجود نہیں تو کل تین ممالک انڈیا،اسرائیل اور پاکستان NPT کےSignaturies نہیں۔ فرق صاف ظاہر ہے کہ ان تین ممالک میں سے کسی ایک ملک کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکہ کو سخت اعتراض ہے اور کن دو کو اس کی ہر معاونت اور مدد حاصل ہے۔
امریکی ایجنسیوں کی پاکستان میں کارروائیوں کے حوالے سے رپورٹس میڈیا میں نشر اور شائع ہوتی رہتی ہیں۔
ان پر کسی نے اعتبار کیا کسی نے جھٹلا دیا۔اب سیکرٹری دفاع فرما رہے ہیں کہ امریکہ نہ صرف اپنی بلکہ دیگر ممالک کی ایجنسیوں کو بھی پاکستا ن کے ”خلاف “استعمال کرتا ہے۔ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں موجود سی آئی اے کے ایجنٹوں پر مبنی فہرست مکمل کرلی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہر ملک میں پائے جاتے ہیں لیکن جس تعداد اور جن مقاصد کیلئے پاکستان میں بیرونی ایجنٹ پچھلے چند سال سے سرگرم ہیں،وہ پاکستان کے قومی مفاد کیخلاف تصور کیے جاتے ہیں۔
یہ امر باعث تسکین ہے کہ سیکرٹری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ غیر ملکی ایجنٹوں کو درپردہ کارروائیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی جس کیلئے ہمیں اپنی انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر اور جدید بنیادوں پر تشکیل دینا ہوگا ، چھپے دشمن جن میں ریمنڈ ڈیوس کو مثال کے طورپر پیش کیاجاسکتا ہے ان کو فہرست میں درج کرنے کے فوراً بعد ایسے عناصر کی سازشوں کا قلع قمع کیا جائے یا پھرملک سے باہر نکال دیاجائے۔
وزیر داخلہ رحمن ملک کا پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں یہ اعلان کہ غیر ملکی ایجنٹس بلوچستان کراچی اور فاٹا میں مصروف کار ہیں کافی نہیں ہے بلکہ ایسے عناصر کی سرکوبی کیلئے جو بھی اقدامات کرنا پڑیں وہ وقت کا تقاضہ اور قومی مفاد کیلئے ضروری ہیں۔یہاں یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں موجود ایجنٹ صرف مغربی ممالک کے ہی نہیں۔ ان کا تعلق دیگر کئی ممالک سے بھی ہے۔موجودہ حالات میں ایک قومی عزم کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں اگر کچھ دوست ممالک کے مفادات کو زِک بھی پہنچتی ہے تو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں ہرحال میں اپنے مفادات کے تحفظ کی ضرورت ہے۔
پاکستان امریکہ کے درمیان ملٹری کواپریشن اور ملٹری امداد کا رشتہ ابھی تک قائم ہے جو رہناچاہئے۔ پاکستان کی دفاعی تیاریوں کے حوالے سے امریکہ کو بھی معلوم ہے کہ یہ تیاری ہمارے روایتی حریف بھارت کیلئے ہے۔ ایک سپر پاور ملٹری امداد اپنے خلاف نہیں دیتی لیکن پاکستان میں جاسوس نیٹ ورک قائم کرنا، پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس پر بھروسہ نہ کرنا، پاکستان کیلئے ایٹمی پروگرام کی امداد میں دوہرا معیار اپنا ناامریکہ کو پاکستانی عوام میںکبھی مقبول نہیں کرے گا۔
پاکستان بھارت کا اسلحہ کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کرسکتا تاہم اسے اپنے دفاع کیلئے ایسے اقدامات کا حق حاصل ہے جس طرح کے اس کا دشمن کرتا ہے۔پاکستان نے ایٹمی قوت بننے کا فیصلہ بھارت کی جارحیت سے بچنے کیلئے کیا۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد بھارت کی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرا¿ت نہیں ہوئی البتہ وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش ضرور کرتا رہتا ہے۔ ایٹمی پروگرام قوم کا عظیم ترین سرمایہ اور پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی کلید ہے۔معیار اور اس کی سکیورٹی کے حوالے سے یقینا بھارت کے پروگرام سے کہیں برتر ہے۔ بھارت میں مختلف مواقع پر ایٹمی مواد چوری ہونے کے واقعات ہوچکے ہیں اس کے کتنے ہی ایٹمی سائنسدان اغوا اور قتل ہوئے پاور پلانٹس میں کئی بار دھماکے ہوچکے ہیں۔عالمی برادری کو تحفظات تو بھارت کے نیو کلیئر پروگرام پر ہونے چاہئیں الٹا پاکستان کو نشانہ بنایا جاتاہے جس کا پروگرام ہمیشہ سے محفوظ ہے۔ سیکرٹری دفاع نے قوم کویقین دلایا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے اس کو مزید فول پروف بنانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ہماری قیادتوں کی بہت سی کمزوریوں کے باوجود پاکستان کا نیو کلیئر پروگرام پاکستان کی بقا،سلامتی،سالمیت اور ناقابل تسخیر دفاع کی ضمانت ہے۔ امریکہ دوہرا معیارترک کرے اور پاکستان،انڈیا اور اسرائیل کے ایٹمی پروگراموں کوبرابری سے نوازے۔
Providing aid and shelter and sanctuary to Bin Laden, then jailing the fellow who provided information about the whereabouts of the biggest mass killer of Americans in US history, and the Americans are supposed to be worried because Pakistanis don’t like them? Ha ha.