Obama, Karzai Discussions on US Presence in Afghanistan After 2014

<--

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کی جس میں 2014ءکے بعد کی افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس حوالے سے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماﺅں نے اس سکیورٹی معاہدہ پر مذاکرات کئے ہیں کہ امریکی فورسز کیسے 2014ءکے بعد افغانستان میں رہ سکتی ہیں۔ دونوں رہنماﺅں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ 2014ءمیں بھی افغانستان میں امریکی موجودگی ممکن ہو سکتی ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صدر اوباما نے کہا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کیخلاف پاکستان کے حالیہ اقدامات خوش آئند ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔ پاکستان کی جانب سے طالبان رہنماﺅں کی رہائی کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ افغان طالبان امن کونسل کے ممبر سے مذاکرات کرینگے۔ اس عمل میں پاکستان کی معاونت بھی حاصل ہو گی۔ امن کیلئے پاکستان افغانستان حکومت کے تعاون کے مشکور ہیں۔ صدر کرزئی نے اگلے برس (2014ءکے بعد) افغان صدر کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی صدر اوباما کی طرف سے پاکستان کے دہشت گردوں کیخلاف اقدامات پر اطمینان خوش آئند ہے مگر اس میں بہت سے پہلو توجہ طلب ہیں۔ اول تو اوباما کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ نائن الیون کے سانحہ کے بعد امریکہ نے عالمی دہشت گردی کیخلاف جس جنگ کا آغاز کیا‘ اس میں ایک ریاست کی حیثیت سے پاکستان سے تعاون طلب کیا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جنگ پاکستان کے گلے کا ہار بنی اور عالمی برادری نے اس کا ذمہ خود سے اتار کر واحد پاکستان کے نام کر ڈالا۔ اس میں پاکستان کو بیش بہا قربانیاں دینا پڑیں۔ نہ صرف پانچ ہزار پاک فوج کے سپوتوں سمیت چالیس ہزار پاکستانی شہید ہوئے بلکہ اقتصادی اعتبار سے بھی پاکستان کی معیشت تباہی کا شکار ہوئی۔ جو ابتدائی تخمینے کے مطابق 70 بلین ڈالر کے قریب ہے لیکن اس سے بھی بڑا نقصان امریکہ کی پاکستان کے دشمن نمبر ایک بھارت سے غیرضروری قربت ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ بھارت کو افغانستان میں ایک بڑا کردار سونپنے کے درپے ہے جو کسی بھی صورت پاکستان کو قبول نہیں۔ امریکہ نے بڑی فراخدلی سے بھارت پر نوازشات کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر انرجی کا معاہدہ کیا اور اس پر عائد تمام اقتصادی پابندیاں اٹھالی گئیں۔دوسری طرف فرنٹ لائن اتحادی کو بری طرح نظرانداز کیا گیا‘ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک مرحلے پر پاکستان کو سہ فریقی مذاکرات کے عمل سے خارج کردیا گیا۔ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امریکہ اورنیٹو کی موجودگی ممکن ہے اور نہ ہی پرامن انخلاءہو سکتا ہے۔ پاکستان کو نظرانداز کیا گیا تو واشنگٹن افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ اسکے نتیجے میں اب اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔ یہ عمل حوصلہ افزا ہے کہ صدر اوباما نے امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات میں دہشت گردی میں پاکستان کے کردار کو سراہا ہے۔ اب اوباما یہ اقرار کر رہے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعاون کے بغیر اس خطے میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ یہ عمل بھی باعث تسکین ہے کہ اوباما اب یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف طے شدہ اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں کابل اسلام آباد اور واشنگٹن اس پر متفق ہو چکے ہیں کہ افغان مسئلے کا حل افغان قیادت کے مختلف سٹیک ہولڈر ز سے مذاکرات کرنا ہے۔

یاد رہے خطے کے چھ ممالک افغانستان‘ ترکی‘ پاکستان‘ امریکہ‘ چین اور روس نے افغان مسئلہ حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا لیکن یہ کوششیں باور آور نہ ہو سکیں جس پر حکمت عملی تبدیل کی گئی اور پاکستان کی طرف سے بارہا ان کوششوں کو کامیاب بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے جس کا واحد مقصد مغربی سرحد کو پرامن رکھنا ہے۔ امریکہ جس بات پر سب سے زیادہ پریشان ہے‘ وہ اسکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد افغانستان کے حالات ہیں اور اب یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ پاکستان کو شامل کئے بغیر اس خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔

امریکہ نے افغانستان پر یلغار کرکے بڑی غلطی کی‘ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے افغانوں کی ماضی بعید اور ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالے بغیر چڑھائی کردی۔ سوویت یونین کے فوجیوں کا افغانستان میں قبرستان بننا‘ جدید ترین اور وافر اسلحہ کا مدفن اور سپرپاور کی شکست و ریخت کا تازہ ترین واقعہ تھا جس کے زخم آج بھی روس چاٹ رہا ہے۔ اب امریکہ کو بھی کم و بیش انہی نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ گو امریکہ اپنی جنگ کیلئے دوسرے ممالک کو بھی ایندھن بنا رہا ہے‘ ان میں پاکستان سرفہرست ہے جس کے 40 ہزار افراد اس جنگ کی نذر ہو گئے۔ یہ تعداد جنگ میں براہ راست شریک امریکہ سمیت تمام ممالک کے کام آنیوالے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ افغان عراق جنگ کی بدولت امریکہ کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ ماضی بعید میںسلطنت عثمانیہ اور برطانیہ کی معیشت ڈوبی تو یہ سلطنتیں سکڑ کر محدود ہو گئیں۔ ماضی قریب میں سوویت یونین کو بھی اسکی معاشی زبوںحالی نے بکھیر کر رکھ دیا۔ دنیا کو امید پیدا ہوئی تھی کہ امریکہ افغانستان سے 2014ءمیں مکمل انخلاءکرکے اپنی معیشت کو سنبھالتے ہوئے شکست و ریخت سے محفوظ رہے گا‘ لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ امریکی حکام اب بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھ پائے۔ امریکی معیشت اسی طرح ڈوبتی چلی گئی تو چین چند دہائیوں میں اس پر اقتصادی برتری حاصل کرلے گا۔حامد کرزئی نے 2014ءمیں اقتدار سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔لیکن تب تک امریکہ کے احسانوں تلے دبے ہوئے کرزئی 2014ءکے بعد بھی امریکی افواج کے افغانستان میں موجودگی کے معاہدے پر جبراً یا خوشدلی سے دستخط کر دیئے تو اس سے خطرناک نتائج مرتب ہونگے۔ امریکہ اور اتحادیوں کے انخلاءکے بعد خطے میں امن کی جو امید پیدا ہوئی تھی‘ واشنگٹن کابل متوقع معاہدے سے وہ دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ جو لوگ مذاکرات اور امن کے راستے پر آنے کیلئے آمادہ تھے‘ ان کو ایک بار پھر بندوق اٹھانے کا جواز مل جائیگا۔ یہ معاہدہ امریکہ‘ افغانستان اور پاکستان سمیت کسی کے بھی حق میں بہتر ثابت نہیں ہو سکتا۔ خطے میں امن کا واحد حل امریکہ کا شیڈول کے مطابق افغانستان سے مکمل انخلاءہے‘ جو امریکہ کے مفاد میں بھی ہے۔ اس سے امریکہ ممکنہ شکست و ریخت سے محفوظ رہ سکتا ہے اور خطے میں بھی امن کا قیام ممکن ہے۔

About this publication