New Turn in the War on Terror

<--

دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے حکمرانوں نے ایک ہی روز پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں کردار ادا کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ چینی وزیر اعظم نے ہمارا شکریہ ادا کیا ہے کہ ہم نے ان کے ملک میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میںاہم اور مثبت کردار ادا کیا۔ دوسری طرف امریکی صدر نے وار آن ٹیرر پر نئی پالیسی دیتے ہوئے پاکستان کی ان قربانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے دہشت گردی کی جنگ میںایک عشرے کے دوران پیش کی ہیں۔ایبٹ آباد آپریشن میں پاکستانی حکومت کے تعاون کا ذکر انہوںنے ایک بار پھردہرایا ہے۔

ان دونوں سربراہوں کے بیانات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتاہے کہ وار آن ٹیرر پر پاکستان کی رائے عامہ سے وہ کس قدر اختلاف کر رہے ہیں۔ حالیہ الیکشن میںووٹروں کی اکثریت نے ایسی دو پارٹیوں کو مینڈیٹ دیا ہے جو پاکستان کو وار آن ٹیرر سے نکالنا چاہتی ہیں۔مشرف اور زرداری دور میں دنیا اور پاکستان کی حکومتوں کا کم وبیش یکساں نکتہ نظر رہا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دہشت گردی پر عالمی رائے عامہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ بوسٹن دھماکے اور برطانیہ میں ایک فوجی کو ذبح کرنے کے بعد دنیا میں دہشت گردی کے خلاف موقف میں شدت پیدا ہوگئی ہے، اس لئے کہ نائن الیون کے بعد ایک بار پھر دنیا کو یہ خطرہ محسوس ہوا ہے کہ انتہا پسندی نے ان کے گھر کا رخ کر لیا ہے۔اوبامہ نے کہا تو ہے کہ امریکی قوم پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئی ہے ، اسی لئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس جنگ کو کبھی نہ کبھی ختم ہونا ہے، آج نہیں تو کل۔مگر بوسٹن جیسے واقعات میں جب ان کے سامنے یہ شواہد آتے ہیں کہ اس سانحے کے مجرموں کا عقیدہ یہ تھا کہ کافر جہاں نظر آئے اسے موت کے گھاٹ اتارنا فرض ٹھہرتا ہے۔برطانیہ میں کلہاڑے کے پے در پے وار کرنے والے مخصوص اسلامی نعرے لگا رہے تھے تواس سے مغربی دنیا کے لئے نئے خطرات نے سر اٹھایا ہے۔

چین کے وزیر اعظم پاکستان اترے تو انہوںنے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کو مضبوط کرنے آئے ہیں۔میں نے اپنے کل کے کالم میں اس کا یہ ترجمہ کیا کہ اگر بھارت نہیں تو امریکی استعمار سے بچانے میں چین ہماری مدد کے عزم کا اظہار کر رہا ہے مگر بعد میں جب انہوں نے مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کے عناصر پر قابو پانے میں پاکستان کی مدد کا ذکر کیا تو پتہ چلا کہ سٹرٹیجک تعلقات سے ان کی مراد، وار آن ٹیرر پر مشترکہ موقف ہے۔چین کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ پاکستان کے لوگ سنکیانگ میں انتہا پسندی کے جذبات بھڑکا رہے ہیں۔اس کا یہ بھی الزام تھا کہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کے عناصر کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گوریلا جنگ کی تربیت دی جاتی ہے۔چین میں ان لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کیا تو چینی سیکورٹی فورسز نے ان کو موقع پر بھون ڈالا اور کچھ کو قید کر لیا جنہوں نے سارا راز کھول دیا۔

دو بڑی طاقتوں کے ایک جیسے موقف کے بعد ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنے اور عالمی نظریات میں کوئی مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اگر ہم اپنے موقف کو بر حق سمجھتے ہیں تو پھر ہر چہ بادا باد! ہمیں اپنے ایٹمی پٹھے دکھانے چاہئیں ۔اے این پی کے رہنما زاہد خاںنے کہا ہے کہ عمران خان نیٹو سپلائی روٹ کو منقطع کر کے دکھائے، یہ کام ان کی پارٹی سے تو نہیں ہو سکا۔مسئلہ نیٹو سپلائی روٹ تک محدود نہیں ، ڈرون حملوں کا بھی ہے جن کے بارے میں اوبامہ نے نئی پالیسی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں یہ حملے فی الحال سی آئی اے ہی کرتی رہے گی اور ہر چھ ماہ بعداس ا مر کا جائزہ لیا جائے گاکہ امریکی فوج افغانستان میں کس قدر محفوظ ہے۔عمومی طور پر ڈرون حملوں کی کمان امریکی فوج کے حوالے کر دی گئی ہے لیکن پاکستان کو نئی پالیسی سے مستثنی رکھا گیا ہے۔سی آئی اے اپنے آپریشنز کے بارے میں کسی کو جواب دہ نہیں۔اس طرح پاکستان کے لئے خطرات میں کوئی نمایاں کمی واقع نہیں ہوئی سوائے اس اعلان کے کہ اب محض کسی کو القاعدہ کے ساتھ وابستگی کے جرم میں ڈرون کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ متعلقہ شخص یا گروہ امریکہ کے لئے کس حد تک خطر ناک ہے، ایبٹ آباد آپریشن پر پاکستان کے عوام جس طرح بھڑک اٹھے تھے ،اس کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا کہ زمینی حملوں سے حتی الامکان گریز کیا جائے گا۔اسامہ بن لادن کا خطرہ ٹل جانے کے بعد اب امریکہ کے سامنے کوئی بڑا ٹارگٹ ہے بھی نہیں جس کے خلاف زمینی کاروائی کی ضرورت ہو ، ملا عمر اور کوئٹہ شوریٰ کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن اب انہی لوگوں سے امریکہ مذاکرات کا ڈول ڈال رہا ہے۔ اس لئے ان کے خلاف کوئی زمینی حملہ کیوں ہو گا۔ زمینی حملوں کے لئے الگ جتھے موجود ہیں، اور انہوں نے پاکستان کو لہو لہان کر رکھا ہے، ہر روز دھماکے ہو رہے ہیں اور خون بہہ رہا ہے۔وار آن ٹیرر میں اتنے تضادات ہیں کہ اس کا کوئی سر پیر نظر نہیں آتا، جنرل کیانی بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ایک بے چہرہ، بے نام دشمن سے پالا پڑا ہے۔یہ ایک ایسا کمبل ہے جس سے ہم جان چھڑانا بھی چاہیں تو یہ کسی دوسری صورت میں ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔امریکہ کو خود کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ، اس کی جارحیت کے رد عمل میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جو فروغ حاصل ہو چکا ہے، اس کے سامنے پاکستان کی آنے والی کئی حکومتیں بھی شاید ہی کچھ کر پائیں۔ میاںنواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کی بات چھیڑی ہے، فضل الرحمن بھی اس پر تیار ہیں اور منور حسن بھی اس کی حمائت کر رہے ہیں لیکن میاں صاحب کی حکومت کی ترجیح کیا ہو گی، طالبان سے مذاکرات یا لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ یا گڈ گورننس یا کرپشن فری ریاست یا ملک میں خوشحالی کے لئے معاشی انقلاب یا بھارت سے جپھی۔یہ ایک چو مکھی لڑائی ہے ۔ایوان صدر میں گزشتہ روز میاں صاحب اور جناب زرداری میں جو مکالمہ ہوا ، وہ حوصلہ افزا ہے۔ صدر نے کہا ہے کہ انہوں نے پانچ سال میں یہ سبق سیکھا ہے کہ ملک کے مسائل کو کوئی اکیلے حل نہیں کر سکتا۔ میاں صاحب نے جو اب میں کہا کہ اسی لئے تو ہم نے سب سے تعاون مانگا ہے، جناب صدر نے اپنی طرف سے بھر پور تعاون کی پیش کش کی ہے۔مگر سیاست کے باقی کھلاڑیوں کا طرز عمل کیا ہو گا، کیا ہر کوئی ایک دوسرے کی ناکامی کا تماشہ دیکھے گا یا ایکدوسرے کی طرف دست تعاون دراز کرے گا۔دنیا کی دونوں بڑی طاقتیں کم از کم دہشت گردی کی حد تک ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ سوال ہماری سیاسی قوتوں کا ہے کہ ان کے درمیان کس حد تک اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے، میں قنوطی واقع نہیں ہوا، کم ازکم ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے مجھے اپنے آپ پر فخر ہے لیکن سیاسی محاذ پر مجھے مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ہم اپنی ایٹمی قوت کو دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی قوت میں کب تبدیل کریں گے۔

About this publication