John Kerry's Recent Pakistan Visit

<--

جان کیری نے 1966 میں بطور نیول آفیسر امریکی نیوی میں ملازمت اختیار کی تو سیدھے ویت نام پہنچ گئے جہاں انہوں نے چار سال جنگ میں بطور ایک جونیئر آفیسر حصہ لیا تو ان کو اندازہ ہوا کہ ویت نام جنگ امریکہ کے لئے کتنی بے سود جنگ تھی۔ ان کے خیال میں ویت نام میں امریکہ کا کوئی فوجی مفاد تھا نہ معاشی اور نہ ہی ویت نام کی طرف سے امریکہ کی قومی سلامتی یا ملکی مفادات کو کوئی خطرہ تھا۔ اس سوچ کے ساتھ 1970 کے بعد انھوں نے ویت نام جنگ کے خلاف زبردست مہم کا آغاز کیا تو فوجی ماہرین نے جان کیری کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش اس لئے کردی کیونکہ جان کیری اس وقت امریکہ کی ریزرو فوج کا حصہ ہونے کے ناطے قانوناً ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ سیاسی قیادت نے بہر حال جان کیری کے خلاف کسی بھی کاروائی سے گریز کیا ۔ اس کے بعد جان کیری نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو 1983 میں لیفٹینٹ گورنر بن گئے ، 1985 میں امریکی سینٹ کے رکن منتخب ہو ئے۔ پچھلے 28سال سے ان کے پاس یہ اعزاز موجود ہے۔ جان کیری نے 1998 میں بل کلنٹن کے افغانستان اور سوڈان پر کئے جانے والے کروز میزائلوں سے حملو ں کی حمائت کی تھی۔ چونکہ یہ حملے دہشت گرد وں کے خلاف تھے ۔ لیکن جان کیری ویت نام جیسی بے سود جنگوں کے بالکل خلاف تھے اور آج بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 2004کے صدارتی انتخاب میں جان کیری کی انتخابی مہم کا ایک اہم نقطہ بش کے عراق پر حملے کی مذمت تھا۔ جان کیری کے خیال میں امریکی سیاسی قیادت کو افغانستان پریلغار کے بعد تورا بورا کے علاقے میں اسامہ بن لادن کے گروہ کو ختم کرکے واپس امریکہ آجانا چاہئے تھا ۔ جارج بش نہ صرف اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں ناکام رہابلکہ افغانستان کے کام کو ادھورا چھوڑ کر صدام حسین کے بڑی تباہی کرنے والے ان خطرناک ہتھیاروں کے پیچھے دوڑپڑا جن کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ بات امریکہ کی ہزیمت کا سبب بنی۔ جان کیری کا حالیہ دورہ پاکستان میرے خیال میں سفارتی سطح پر پاک امریکہ تعلقات میں بہتری لانے کی ایک اچھی ابتدا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سوچ کو مندرجہ ذیل حالات و واقعات تقویت دیتے ہیں۔ ٍٍ۱) جان کیری جو پچھلے چار سال سے امریکی سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، ایک بہت منجھے ہوئے سیاست دان اور سٹیٹ پرسن مانے جاتے ہیں ۔ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر جب ان سے سوال کیا گیا کہ اب آپ کے پاکستان سے کیا مطالبات ہیں تو اس کا فوراً جواب یہ تھا کہ دوستوں سے مطالبے نہیں کئے جاتے۔ ہم مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالینگے۔ حالانکہ قارئین کو یاد ہو گا کہ ہیلری کلنٹن نہائت رعونت کے ساتھ Do More کا ورد کرتی تھیں۔ ہماری ایک خاتون صحافی نے ان کو ایک ایسی ساس کہا تھا جن کو مطمئن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ۔ ۲) دوسری بڑی ماحول میں تبدیلی یہ ہے کہ اب امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی کا مکمل یقین ہو چکا ہے۔ ۳) امریکہ کو اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ کرزئی حکومت کرپٹ اورنااہل ہے اس کے علاوہ اس میں بھی شک نہیں کہ امریکی انخلاء کے بعد افغان نیشنل فورس بھی طالبان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مل جائے گی۔ ۴) امریکہ افغانستان میں ضرور پانچ چھ ہوائی اڈوں پر اپنی دس سے پندرہ ہزار فوج رکھنے کا متمنی ہے اور وہ تقریباً چھ CIA کے سنٹر چلانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے لیکن اگر افغانوں نے ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج کو افغانستان میں ناکوں چنے چبوا د ئیے تو وہ ان اڈوں کو کیسے چلنے دیں گے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود خو ست میں CIA کے بہت ہی اہم حساس مرکز کے اندر گھس کر طالبا ن نے CIA کے چھ سات نہائت تجربہ کار سٹاف ممبرز کو ہلاک کر دیا تھا۔ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں کسی بھی صورت میں بیرونی افواج کی موجودگی ایک بہت مشکل کام ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان، جاپان ہے نہ کوریاجن کو امریکہ نے باقاعدہ فتح کیا اور آج بھی وہاں امریکی اڈے موجود ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا افغانستان میں ممکن نہیں اور خصوصاً ایسے حا لات میں جب امریکہ کو افغانستان میں شکست ہو چکی ہے۔ ۵) پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری کی نوید کی ایک کرن پاکستان میں عوامی خواہشات کی ترجمان ایک نئی حکومت ہے جس کے لیڈر میاں محمد نواز شریف نے امور خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا ہے جو افغانستان سے ہی نہیں بلکہ بھارت سے بھی ایک دیر پا امن کی خواہشات کا بار بار ذکر کر چکے ہیں جو قابل تعریف ہے۔ قارئین حالات بہتر کرنے کے لئے Political Will ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن ایسی مضبوط سیاسی رضا کا اظہار دونوں اطراف سے ہونا ضروری ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو یہاں امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد امن آسکتا ہے بشرطیکہ امریکی انخلاء خطے کے سارے ممالک کے صلاح مشورے سے ہو دوسرا یہ ہے عبوری دور میں بین الاقوامی امن فوج افغانستان میں آزادانہ انتخابات کروائے۔ تیسرا یہ کہ طالبان کو ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہو۔ چوتھا یہ کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کے لئے Zero Option یعنی مکمل انخلاء پر عمل درآمد کرے۔ اگر ایسا نہ ہو تو بد قسمتی سے امریکی انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہے گی۔ چونکہ ا) امریکہ کی نگرانی میں منتخب ہونے والی نئی افغان حکومت بھی کرزئی کی حکومت کی طرح غیر موثر اور کر پٹ ہوگی۔ ۲) افغان نیشنل فورس جس میں آرمی، ایئر فورس اور نیوی شامل ہیں افغانستان کے حالات کو قابو میں رکھنے کے اہل نہیں۔ ۳) طالبان جنہوں نے افغانستان میں اتحادیوں کی فوج کو شکست دی، کی طاقت کو کس

ی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد طالبان کرزئی کے حامی وار لارڈز کے خلاف ضرور نبرآزما ہوجائینگے۔ ایسی صورت حال میں پڑوسی پاکستان کی فضاء کا ابر آلود ہونے سے بچنا بہر حال مشکل ہوگا۔ افغان مہاجرین کا پاکستان پر دبائو بڑھیگا، جرائم پیشہ لوگ اور مذہبی جنونی پاکستان میں دھماکے کرکے طالبان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر تے رہیں گے۔ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو 2014 کا انتظار کئے بغیر اپنی تیاری ابھی سے شروع کر دینی چاہئے تاکہ خطے کے لئے تمام Stake Holders کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے قابل قبول حل تلاش کر لیا جائے۔یہ ساری جنگ سیاسی اور سفارتی محاذوں پر لڑنے کے لئے پاکستان اور بالخصوص امریکہ کی سیاسی قیادت کے کندھوں پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ امید ہے وہ اپنی اس ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے کی پوری کوشش کریں گے۔

About this publication