America Not Ending Afghanistan War in Responsible Manner

<--

افغانستان میں امریکہ جنگ ذمہ دارانہ انداز میں ختم نہیں کررہا

صدر اوباما نے کہا ہے کہ امریکی فورسز نے پاکستان اور افغانستان سے القاعدہ کی اہم قیادت کو منطقی انجام تک پہنچادیاہے۔ اسامہ بن لادن کا خاتمہ ہو گیا۔ اگلے 3ماہ میں افغانستان میں امریکی جنگی مشن اختتام پذیر ہو جائے گا۔ افغانستان میں امریکی جنگ ذمہ دارانہ انداز میں ختم ہو گی۔

امریکہ نے عراق سے بھی امن مشن کی تکمیل کے بعد فوجیں واپس بلا لی تھیں۔اب وہاں داعش کی کارروائیاں شروع ہوئی ہیں تو اوبامانے کہا ہے کہ اس کیخلاف کارروائی نہ کی گئی تو یہ خطرہ ثابت ہو گی۔امریکہ کی اس ممکنہ نئی مہم جوئی پر کچھ حلقوں نے اٖفغانستان میں نیٹو اپریشنز کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا جس پر امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہارف نے کہا کہ اسلامک سٹیٹ (آئی ایس) پر توجہ سے پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی میں اضافہ نہیں ہوگا، شام اور عراق میں آئی ایس کے عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے وسائل کا کچھ حصہ منتقل کیا۔ ہمارے پاس خاصے وسائل ہیں ۔ہم یقینی طور پر بیک وقت بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

امریکہ کے بے پناہ وسائل شک و شبہ سے بالا تر ہیں لیکن یہ وسائل کئی محاذ کھولنے سے بکھر بھی سکتے ہیںجس کا فائدہ دشمن کو ہوگا اور اس کا دشمن ابھی اتنا کمزور نہیں ہوا کہ اسے بے بس قرار دے دیا جائے۔ امرکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ القاعدہ گروپ کے ہر ایک رکن کو جنگ کے میدان سے دور لے جایا گیا ہے۔ سوائے ایمن الظواہری کے۔ظواہری کے ہوتے ہوئے امریکہ خود کو کیسے محفوظ سمجھ سکتاہے؟

اگرچہ امریکہ نے القاعدہ کو کمزور کر دیا مگر پاکستان دہشتگردی کے باعث نائن الیون کے بعد کہیں زیادہ غیر محفوظ ہوگیا ہے۔امریکہ اگلے دوتین ماہ میں افغانستان نے نکل جائیگالیکن پاکستان افغانستان کے اندر سے دہشتگردی کا نشانہ بنتا رہے گا ۔اس کا یقینا جواب بھی دیا جائیگا جس سے خطہ آج سے بھی زیادہ بدامنی کا شکار ہوجائیگا۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ اپنی جنگ ذمہ دارانہ انداز میں ختم نہیں کررہا۔امریکہ بروقت اپنی جنگ سمیٹنے کے ساتھ مستقبل میں پاکستان کے امن کو یقینی بنا کر جائے، وہ اسی صورت ممکن ہے کہ پاکستان پر حملوں میں ملوث مولوی فضل اللہ اور اسکے ساتھیوں کا جن کو افغان حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے‘ امریکہ خاتمہ کرے یا ان کو پاکستان کے حوالے کردے۔ دہشتگردوں کو پناہ دینے پر افغان حکومت کی گوشمالی کی بھی ضرورت ہے۔

About this publication