America Needs to Acknowledge War Crime in Iraq

<--

امریکہ بھی عراق کے معاملے میں اپنی جنگی جرم کا اعتراف کرے

برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے عراق پر حملے کے دوران ہونے والی غلطیوں پر معافی مانگ لی ہے ٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ عراق پر چڑھائی نے داعش کی تشکیل کے لئے راستہ کھولنے میں اہم کر دار ادا کیا سی این این سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جنہوں نے 2003 میں صدام حسین کو ہٹایا تھا ان پر 2015کے واقعات کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی امریکہ کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں تا ہم صدر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے پر معافی مانگنا بڑا مشکل ہے اس کے بغیر عراق دوسرا شام بن جاتا۔سابق برطانوی وزیراعظم کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ سی آئی اے پہلے یہ اقرار کر چکی ہے کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق اس کی رپورٹ غلط تھی بعد ازاں امریکی کارروائی کے دوران بھی یہ ثابت ہوگیا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار نہ تھے گویا عراق پر حملہ امریکہ کا ایک جنگی جرم تھا اب ٹونی بلیئر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حملہ ایک جنگی جرم تھا انہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ ہم صدر بش کے ہمراہ اس جنگ کا حصہ بنے ہم اس بات پر معافی مانگتے ہیں کہ عراق کے حوالے سے جو انٹیلی جنس معلومات دی گئیں وہ درست نہ تھیں عراق پر حملے اور وہاں صدام حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی میں غلطیاں ہوئیں” لیکن اب معافی کا کیا فائدہ ہے بش اور ٹونی بلیئر کی غلطیوں کے نتیجے میں لاکھوں گھر اجڑ گئے لا تعداد خاندان بکھر گئے، ہزاروں خواتین بے سہارا ہوئیں اور بچے یتیم ہوئے تاریخ اس کی شاہد ہے کہ اس وقت برطانیہ ایک اندھے اتحادی کی طرح امریکہ کی تقلید کر رہا تھا ٹونی بلیئر کی شاہد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوگئی تھی، سارے فیصلے صدر بش کر رہے تھے اور برطانیہ کو اس امر سے کوئی سروکار نہ تھا کہ کس فیصلے پر عمل درآمد کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ایک دہائی سے زیادہ عر صہ گزرنے کے بعد ٹونی بلیئر کی معافی معصوم اور بیگناہ انسانوں کے دکھ دور نہیں کر سکتی اگر عراقی جنگ جنگی جرم تھا اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو جب تک سزا نہیں دی جاتی اس وقت تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جاسکتے سابق صدر بش کو بھی اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہئے کہ انہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق سی آئی اے کی غلط اطلاعات کی روشنی میں اس مملکت کے خلاف عالمی ادارے سے قرار داد منظور کروائی اور پھر اس پر چڑھ دوڑے جب کیمیائی ہتھیاروں کا سراغ نہ ملا تو یہ کہا گیا کہ عراقیوں کو صدام کی آمریت سے نجات دلانے کے لئے ایکشن کیا گیا ابھی تک اقوام متحدہ نے کوئی ایسا اصول وضع نہیں کیا کہ کسی ملک کے اندر آمریت ختم کر نے کے لئے امریکہ یا کسی دوسرے ملک کو اختیار حاصل ہے لیکن عراق کے معاملے میں امریکہ نے دھونس اور دھاندلی کا ارتکاب کیا، برطانیہ کی طرح امریکہ کو بھی اپنے جرم کا اعتراف کر لینا چاہئے۔

About this publication