پاکستان مخالف دہشتگردوں کے خلاف امریکہ کو کارروائی کرنی ہوگی
پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے ایک انٹرویو میں امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نے جہاں دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں کی تحسین کی ہے وہاں پاکستان سے مزید کارروائیوں کا مطالبہ بھی کیا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشتگرد گروپوں کے خلاف مزید موثر کارروائی کرے وزیر اعظم نواز شریف کو اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام پورے خطے کیلئے خطرہ ہے شدت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی پالیسی درست ہے بھارت اور امریکہ اس صدی کے اہم شراکت دار بن سکتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ پٹھانکوٹ حملہ کے بعد بھارتی وزیر اعظم کا اپنے پاکستانی ہم منصب سے رابطہ کرنا قابل تعریف اقدام تھا دونوں رہنما خطے میں دہشتگردی اور انتہاء پسندی سے نمٹنے کیلئے مذاکرات کررہے ہیں دنیا بھر میں عسکریت پسندوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے پشاور حملے کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز نے متعدد شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کی ہے دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اسلام آباد خود ہے صدر اوبامہ نے کہا کہ پاکستان کو اس بات کا اظہار کرنا ہوگا کہ وہ دہشتگرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔صدر اوبامہ نے متضاد گفتگو کی ہے ایک طرف وہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کی تعریف کررہے ہیں دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو دہشتگردوں کے نیٹ ورکس ختم کرنے کے معاملے میں اپنی سنجیدگی کو ظاہر کرنا ہوگا اس کے ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد خود دہشتگردی کا شکار ہے یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان نے شمالی وزیرستان سمیت تمام قبائلی علاقوں میں جس طرح دہشتگردوں کے انفراسٹرکچر کو ختم کرکے ہزاروں دہشتگردوں کو گرفتار اور سینکڑوں کو ہلاک کیا ہے اوبامہ ان تفصیلات سے لاعلم ہیں اس وقت پاکستان میں بے انتہاء دہشتگرد موجود ہیں اور ان کے سہولت کار بھی مگر ان کا کوئی نیٹ ورک موجود نہیں ہے دہشتگردی کے خلاف جنگ دراصل پاکستان پر مسلط کی گئی ہے مگر سوات کی کارروائی کے بعد ملا فضل اللہ سمیت جو دہشتگرد افغانستان فرار ہوئے افغانستان میں موجود امریکی ایجنسیوں اور فورسز نے ان کی تلاش اور خاتمے کے سلسلے میں کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی افغانستان کے ناراض بلوچ براہمداغ بگٹی وغیرہ کابل میں بیٹھ کر بلوچستان میں تخریب کاری کی وارداتیں منظم کرتے رہے مگر ماضی کی کرزئی حکومت اور نیٹو فورسز نے پاکستان کے خلاف اس دہشتگردی سے چشم پوشی کی اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جو دہشتگرد افغانستان میں روپوش ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے حال ہی میں اگرچہ ایک ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم دہشتگردوں نے اس کی تردید کی ہے امریکہ کو ہم سے ڈومور کا مطالبہ کرنے کی بجائے اسے خود پاکستان کے مفاد میں ڈومور کرنا چاہیے۔
Pakistan’s droll effrontery pretending they’re not their own worst enemy, with their theocratic disaster of a government, would be amusing without nuclear bombs.
As things stand, their nationalist craziness is terrifying, especially to India.
Obama and every president who comes after need to mind their own business, not keep running across the globe to save countries from terrorism and thereby the hegemony of America.
The business of American presidents from now on will be attending to the terrible consequences of a failed economic system that keeps rapidly increasing inequality and crumbling infrastructure. It seems clear that Obama has been protected from seeing the multiplying pockets of misery and the tent cities — some of them years old — that disfigure the face of America. Nor does he have to drive over bridges that may crumble beneath him, or highways that might give way to sinkholes.
It’s high time that reading terrorism as an act of war be regarded as the political illusion it is. The US has poured billions of dollars into the Pakistani economy with which to build a counterterrorism strategy. Pakistan should long ago been able to manage their own terrorists. All that cash could have been invested in InterPol and that agency made respectable — and capable.