Obama’s Remorse over Interference in Libya

<--

لیبیا میں مداخلت پر اوباما کا پچھتاوا

امریکی صدر بارک اوباما نے حال ہی میں تسلیم کیا اور کہا ’’ہم سے لیبیا میں مداخلت کی غلطی ہو گئی اور نیٹو کی امداد کے لئے ہمیں فرانس اور برطانیہ نے اکسایا تھا، انہوں نے خصوصی طور پر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو ہدف تنقید بنایا کہ وہ کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے نہ صرف نیٹو کی فوجی مداخلت کر بیٹھے بلکہ انہوں نے فرانس کے ساتھ مل کر امریکہ کو بھی تعاون کے لئے اکسایا، بعد میں ڈیوڈکیمرون کی توجہ ہٹ گئی۔دنیا میں عراق سے مصر اور لیبیا سے شام تک اور پھر افغانستان میں یورپ اور امریکہ کی مداخلت کے حوالے سے کئی فکر انگیز تحریریں موجود ہیں اور دانشور حضرات امریکہ اور یورپ کی توسیع پسندی اور پسند ناپسند کی کارروائیوں کا بھانڈا پھوڑتے رہتے ہیں لیکن کبھی کبھار سچ خود ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے۔ نیٹو کی افغانستان اور لیبیا میں مداخلت کے بعد سے اب تک وہاں امن نہیں ہو پایا اور اسی طرح عراق کی صورت حال ہے،جس نے مصر اور شام کو بھی متاثر کیا جبکہ اس خطے میں سعودی عرب اور ایران متحارب صورت میں سامنے ہیں اور ابھی تک کسی دوست ملک کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی کہ ان کے مابین باعزت مفاہمت ہو جائے۔ دوسری طرف اسرائیل محفوظ و مامون ہی نہیں ہر روز فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا ہے۔اس خطے کے لئے بھی امریکیوں اور یورپ کا معیار اپنا ہے وہ زبانی فلسطینیوں کی حمایت کرتے لیکن عملی طور پر اسرائیل کاساتھ دیتے ہیں، یہی بارک اوباما فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اب تک کچھ نہیں کر پائے۔ اب بارک اوباما نے یہ تو تسلیم کیا کہ نیٹو کی مداخلت فرانس اور برطانیہ کی شہہ اور باہمی سمجھوتے کے تحت تھی اور انہوں نے امریکہ کو بھی آمادہ کیا کہ لیبیا میں نیتو کی مداخلت کا ساتھ دیا جائے۔ اگرچہ یہ بیان ہی تاریخ ساز اور ان ممالک کے ’’نیک‘‘ ارادوں کا غماز ہے، اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ ’’ہائے اس زودپشیمان کا پشیمان ہونا‘‘۔۔۔اس بیان کی روشنی میں دنیا کے ان تمام ممالک کو جو ان کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں غور کرنا اور سوچنا چاہیے کہ ان کی پالیسیاں کس طرح ناکام بنائی جائیں خود پاکستان بھی ایسی پالیسیوں کا شکار ہے اور دہشت گردی کا سامنا کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قربانیاں دے چکا، اس سے مطمئن پھر بھی نہیں ہیں، یہ سب غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

About this publication