Agreement between US and Gulf States for Countering Terrorism

<--

دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے امریکہ اور خلیجی ممالک میں معاہدہ

ہشتگردی کی لعنت سے نمٹنے کیلئے امریکہ اور خلیجی ممالک کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ طے پاگیا ہے وائٹ ہائوس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن اور خلیج تعاون کونسل کے درمیان دہشتگردی کے خلاف مل کر لڑنے کونسل کے ممبر ممالک کی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنانے اور خلیجی ملکوں کی بیسٹک دفاعی ضروریات پوری کرنے سے اتفاق کیا گیا ہے یہ امر غور طلب ہے کہ امریکہ نے خلیجی ملکوں کے ساتھ باہمی تعاون کی یقین دہانی ایک ایسے وقت میں کرائی ہے جب آئندہ ہفتے امریکہ اور خلیج کونسل کے سربراہ سعودی عرب میں ایک اہم اجلاس میں ملاقات کرنے والے ہیں دہشتگردی خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ مغربی ممالک اگر دہشتگردی سے دوچار ہیں تو بیشتر مسلمان ممالک بھی اس لعنت کا شکار ہیں اسامہ بن لادن ایک ارب پتی بااثر سعودی شہری تھا مگر اس نے القاعدہ کے ذریعے جہاں مغرب کو حملوں کا نشانہ بنایا وہاں اپنے ملک کو بھی معاف نہیں کیا یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسامہ کی مالی طور پر معاونت کرنے والے متعدد افراد کا تعلق بھی خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب سے ہے القاعدہ کے ساتھ ساتھ اب داعش بھی دنیا کے لئے ایک خطرہ بن چکی ہے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے لئے یہ اس لئے بھی زیادہ خطرات کا باعث ہو سکتی ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے جس کے خدوخال کیا ہوں گے۔ یہ کسی کو معلوم نہیں البتہ اس پر امت مسلمہ متفق ہے کہ القاعدہ اور داعش دونوں کا اسلام کی تعلیمات سے دور کا بھی تعلق نہیں اور دونوں ہی اسلام کو مسخ کررہی ہیں دہشتگردی کے مقابلے کے لئے سعودی عرب نے اپنی سربراہی میں مسلم ممالک کا ایک اتحاد قائم کیا تھا جس میں 34 ریاستیں شامل ہیں ۔مبصرین نے مذکورہ اتحاد پر اپنے تبصروں میں کہا تھا کہ جس طرح امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادی قائم کئے ہیں اسی طرز پر سعودی عرب نے 34 ملکی اتحاد بنایا ہے جو اس کی سربراہی میں دہشتگردی کے خلاف کردار ادا کرے گا۔ تاہم اس اب دہشتگردی سے نمٹنے کے سلسلے میں امریکہ اور خلیجی ممالک کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف 34 ملکی اتحاد کی موجودگی میں اس معاہدے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر متعلقہ ممالک کی دہشتگردی کے خلاف لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ مقصود تھا تو یہ کام 34 ملکی اتحاد کے ساتھ رابطوں اور تعاون کے ذریعے بھی ممکن تھا اس کے لئے خلیجی کونسل کے ساتھ الگ سے معاہدے کی کیاضرورت تھی ۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے خطے میں اپنے مفادات کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں قدم اٹھایا ہے خدشہ ہے کہ عوامی نمائندگی سے محروم ان ریاستوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرے انہیں بلیک میل کرنے اور ان کے وسائل ہتھیانے کے حوالے سے یہ معاہدہ ایک لیور کے طور پر کام کرے گا۔

About this publication