افغان طالبان کی مذاکرات پر مشروط آمادگی
افغان طالبان نے صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مشروط آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بات چیت صرف شریعت کے اندر رہ کر ہو سکتی ہے افغان میڈیا کے مطابق اپنے آڈیو پیغام میں افغان طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ اگر شریعت میں رہتے ہوئے مذاکرات کئے جائیں تو طالبان مذاکرات کیلئے تیار ہیں طالبان نے مذاکرات کیلئے ایک وفد بھی بنا رکھا ہے اگر ہم مذاکرات کے حامی نہ ہوتے تو یہ وفد ہی کیوں تشکیل دیتے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ کا اپنے آڈیو پیغام میں مزید کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں نے افغان عوام پر ایک کٹھ پتلی انتظامیہ مسلط کررکھی ہے اور وہ ہم سے بھی اس انتظامیہ کا حصہ بننے کو کہہ رہے ہیں لیکن ہم اس کا حصہ نہیں بن سکتے کیونکہ کابل حکومت مکمل طور پر بے اختیار ہے اور وہ کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کروا سکتی۔سراج الدین حقانی افغان طالبان کے نائب امیر بھی ہیں اس لئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مذاکرات کے بارے میں ان کے مثبت رویے کو افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت زادہ کی حمایت حاصل ہے تاہم شریعت کے اندر مذاکرات کی بات کرکے انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے ان کا موقف ماضی کے طالبان رہنمائوں سے مختلف ہے وہ موجودہ افغان حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں تاہم ان کے خدشات یہ ہیں کہ یہ حکومت مذاکرات کے دوران طے پانے والے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کروا سکتی اس میں شک نہیں کہ موجودہ کابل انتظامیہ بظاہر وہی فیصلے کر سکتی ہے جن پر اسے امریکہ کی تائید حاصل ہو گویا افغان انتظامیہ کے پس پردہ امریکہ مذاکرات کا خواہاں ہے یہ امر واضح ہے کہ اگر جلد یا بدیر مذاکرات ہوتے ہیں تو فیصلوں پر عملدرآمد صرف طالبان یا افغان حکومت ہی کی نہیں امریکہ چین اور پاکستان کی ذمہ داری ہوگی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ سراج الدین حقانی کے آڈیو بیان کی روشنی میں جلد ہی مذاکرات کی میز سجائی جائے گی اور بات چیت شروع ہوگی موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی ہے پاکستان مذاکرات کیلئے افغان طالبان پر اپنے اثر و رسوخ کو ہرگز بروئے کار لانے کیلئے تیار نہیں ہوگا ملا فضل اللہ اور اس کے گروپ کے خلاف جب تک کارروائی نہیں ہوگی پاکستان مذاکرات کیلئے کوئی نئی کوشش کرنے کیلئے آمادہ دکھائی نہیں دیتا کابل اور اسلام آباد کے درمیان طور خم کے حوالے سے کشیدگی کا خاتمہ بھی ضروری ہے بہر حال سراج الدین حقانی نے اگر واقعی مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے تو اسے ایک اطمینان بخش پیش رفت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یہ امر غور طلب ہے کہ ان کے بیان میں غیر ملکی فوجوں کی واپسی کی کوئی شرط نہیں ہے محض کابل انتظامیہ کی کمزور حیثیت کا تذکرہ کیا گیا ہے افغان طالبان کے رویے میں یہ تبدیلی بھی یقینا چونکا دینے والی ہے۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.