ذرائع ابلاغ کے سارے گرو بہت تحقیق کے بعد ہم جیسے جاہلوں کو یہ سمجھاتے رہے کہ ٹی وی Idiot Boxہے۔اس کی بدولت ملی شہرت سے بچ کر رہو۔ ٹی وی سکرینوں پر ضرورت سے زیادہ رونمائی بالآخر بیک فائرکرجاتی ہے۔ بسااوقات ایسی کاری ضرب لگادیتی ہے کہ آپ منہ دکھانے کے جوگے نہیں رہتے۔امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ان دنوں کچھ ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔کرونا کی وباء بے قابو ہوکر نیویارک جیسے شہروں میں لاشوں کے انبار لگانے لگی تو ٹرمپ نے روزانہ کی بنیاد پر وائٹ ہائوس میں کم از کم دو گھنٹوں تک پھیلی Liveبریفنگ سے خطاب شروع کردیا۔اس کے دائیں اور بائیں صحت عامہ اور وبائی امراض کے مستند ماہرین کھڑے ہوتے ۔وہ بات مکمل کرنے کا مگر انہیں موقعہ ہی نہ دیتا۔ عقل کل بناکرونا جیسے سنگین مسئلہ کی بابت تھڑوں پربیٹھے عطائیوں کی طرح ذرا ہٹ کے مارکہ گفتگو کرتا رہا۔ ماہرین ہکا بکا ہوئے اس کی گفتگو سنتے رہے۔ پروٹوکول کا تقاضہ تھا کہ وہ صدر کی بات میں مداخلت نہ کریں۔ان میں سے ڈاکٹر فائوچی جیسے ماہرین کے چہروں پر مگر بے بسی کے تاثرات نمایاں ہوجاتے۔بغیر کوئی لفظ کہے فائوچی اس کی جہالت کو بے نقاب کرنا شروع ہوگیا۔ٹرمپ کے مداحین نے ڈاکٹر فائوچی کے چہرے پر نمایاں ہوئے تاثرات کو اپنے ہیرو کی توہین گردانا۔ اس کی حفاظت کے لئے اب سخت سکیورٹی کا بندوبست کرنا پڑا ہے۔کرونا پرتوجہ دینے کی بجائے ٹرمپ اپنی طویل بریفنگ کے دوران سخت سوالات اٹھانے والے رپورٹروں کی بے دریغ بے عزتی بھی کرتا اور مبینہ طورپر Fake Newsپھیلانے والے میڈیا کو بے نقاب کرنے پر بہت شاداں محسوس کرتا۔ٹرمپ کی دہری خوشی کا باعث یہ حقیقت بھی رہی کہ پرائم ٹائم کے دوران اس کی جانب سے ہوئی بریفنگ نے Ratingsکے نئے ریکارڈ قائم کرنا شروع کردئیے۔ فارسی محاورے کے مطابق ہرروز مگر روز ِعید نہیں ہوتا۔گزشتہ ہفتے کے آخری دن اس نے مستند ماہرین کی موجودگی میں نہایت ڈھٹائی سے اپنے تئیں ایک Out of Boxآئیڈیا دیا۔ بہت سنجیدگی سے اس امکان کا اظہار کیا کہ کوئی ایسا ٹیکہ بھی تو ایجاد ہوسکتا ہے جو انسانی جسم میں جراثیم کش دوائی ڈال دے۔ اس کی بدولت آپ کے جسم میں شاید ویسا ہی مواد ڈالا جاسکتا ہے جو دفاتر اورگھروں کو جراثیم کش سپرے کے بعد مچھروں وغیرہ سے محفوظ بنادیتا ہے۔جراثیم کش ٹیکے کے علاوہ ٹرمپ نے یہ تجویز بھی دی کہ دورِ حاضر کے طبیب کوئی ایسی ’’شعاعیں‘‘ ایجاد کریں جن میں سے انسان گزریں تو ان کے جسم میں کرونا جیسے وائرس داخل نہ ہوپائیں۔ٹرمپ کی ’’تخلیقی‘‘ تجاویز نے اس کے دل وجان سے گرویدہ لوگوں کی اکثریت کو بھی حیران وپریشان کردیا۔صحت عامہ کے کئی ماہرین کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے امریکی عوام سے فریاد کرنا پڑی کہ وہ اپنے جسم میں جراثیم کش مواد داخل کرنے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔ ایسی کوشش خودکشی کے مترادف ہوگی۔ اس کے خیالا ت نے جو تماشہ لگایا اس کے منفی اثرات کو بھاپنتے ہوئے جبلی طورپر کائیاں ٹرمپ نے رواں ہفتے کے آغاز میں پرائم ٹائم والی بریفنگ سے گریز کیا۔رائے عامہ جانچنے کے حوالے سے ہوئے کئی سروے مگر یہ دکھارہے ہیں کہ وباء کے موسم میں امریکی عوام اپنے صدر کو حوصلہ اور تسلی دینے والے ’’مائی باپ‘ ‘ کی صورت ہرگز نہیں دیکھ رہے۔معاملہ فقط ٹرمپ کی ذات تک ہی محدود نہیں رہا۔ رائے عامہ کی بابت ہوئے تمام سروے بلکہ یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ امریکی عوام کا صرف 30فیصد حصہ یہ اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں کرونا وائرس سے پہلے والی زندگی بتدریج بحال ہونا شروع ہوجائے گی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے نظر آئے کہ امریکہ میں کئی دہائیوں سے جاری نظام کرونا کی بدولت اپنے انجام کو پہنچا۔ اسے بحال کرنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔لوگوں میں پھیلی مایوسی اگرچہ ابھی غصہ کی صورت اختیار نہیں کررہی۔ ٹرمپ اور اس کی جماعت کے لئے سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے والوں کو ٹھوس وجوہات کی بناء پر مگر یقین ہے کہ مایوسی بتدریج غصے میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی۔ اس غصے کا اظہار نومبر2020کے صدارتی انتخاب کے دوران رونما ہوسکتا ہے۔ٹرمپ جس کی وائٹ ہائوس میں واپسی مارچ کے آغاز تک تقریباََ یقینی تصور کی جارہی تھی،اب یہ انتخاب ہارسکتا ہے۔ تاثر یہ بھی پھیل رہا ہے کہ امریکہ کو جوبائیڈن جیسا صدر درکار ہے۔ وہ عمر رسیدہ اور تجربہ کار ہے۔ ٹھنڈے دماغ سے کرونا کی بدولت نمودار ہوئے بحران سے نبردآزما ہونے کی تراکیب صحت عامہ کے مستند ماہرین سے طویل مشاورت کے بعد کسی نہ کسی صورت ڈھونڈ سکتا ہے۔ٹرمپ اور اس کے حامیوں کے لئے بائیڈن کی ممکنہ جیت کا تصور بہت پریشان کن ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے لئے سیاسی حکمت عملی تیار کرنے والے اب ذہن سازی کے ایسے طریقے تلاش کررہے ہیں جو ا مریکی عوام کے دلوں میں مایوسی کے بعد اُبلتے غصے کا رُخ کسی اور جانب موڑدیں۔ آج سے چند روز قبل میں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ عوامی جمہوریہ چین کو پراپیگنڈہ کے جدید ترین ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے دُنیا بھر میں کرونا کی وجہ سے نازل ہوئے عذاب کا یک وتنہا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔اس ہفتے کے آغاز سے یہ کوشش شروع ہوچکی ہے۔ٹرمپ نے آج سے دو روز قبل ٹی وی کیمروں کے روبرو ایک بیان دیا جو اشاروںکنایوں میں دُنیا کو اس امر کے لئے تیار کررہا تھا کہ عوامی جمہوریہ چین کوکرونا’’پھیلانے‘‘ کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد اس امر پر بھی مجبور کیا جائے کہ وہ اس کی وجہ سے برباد ہوئی معیشت کا ’’تاوان‘‘ ادا کرے۔یورپ کے کئی ممالک نے بہت گرم جوشی سے اس تجویز کا خیرمقدم کیا ہے۔اس پر عملدرآمد کے لئے ’’عوامی رائے‘‘ بنانے کی کاوشیں شروع ہوگئی ہیں۔پاکستان کا ریگولرمیڈیا چین کے خلاف نمودار ہوتی گیم کوکماحقہ اہمیت نہیں دے رہا۔ہمارے چند ٹی وی چینلوں نے اگرچہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی صورت عوام کو یہ اُمید دلانی شروع کردی کہ چین کرونا کی مدافعت کو یقینی بنانے والی ویکسین تقریباََ تیار کرچکا ہے۔ہمارا سمندروں سے گہرا اور پہاڑوں سے بلند دوست ہوتے ہوئے چین نے اس ویکسین کو پاکستان میں آزمانے کا فیصلہ بھی کیا۔ مئی کے اختتام تک مذکورہ ویکسین کے مؤثر ہونے کی تصدیق ہوجائے گی۔اس تصدیق کے بعد چین راتوں رات اپنے ہوشرباوسائل کو استعمال کرتے ہوئے ممکنہ ویکسین کی بے تحاشہ تعداد تیار کرلے گا۔ یہ بات بھی طے کرلی گئی ہے کہ ہمارا ہر موسم کا جگری یار ہوتے ہوئے چین کسی اور ملک کو مذکورہ ویکسین عطیہ کرتے ہوئے پاکستان کو اولین ترجیح دے گا۔کرونا کی مدافعت یقینی بنانے والی ویکسین بالآخر پاکستان کو چین ہی کی مدد سے اپنی معیشت کو جلدازجلد بحال کرنے کے امکانات بھی فراہم کردے گی۔کرونا کی وحشت سے گھبرایا میرا دل نہایت خلوص سے متمنی ہے کہ چین سے جو اُمید باندھی جارہی ے وہ جلدازجلدروبہ کار ہوتی نظر آئے۔ جس نسخے کا انتظار ہورہا ہے اس کی تیاری میں لیکن اب بھی کم ازکم دو سے تین ماہ درکار ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت تک ہم کیا کریں۔ہمارے شہروں اور دیہات میں بدقسمتی سے لاک ڈائون کی وہ صورت حال نظر نہیں آرہی جو کرونا کے تدارک کے لئے ضروری ہے۔لاک ڈائون کے نرم ہونے کی وجوہات بنیادی طورپر معاشی ہیں۔ہماری معیشت صدیوں سے Informalاور زرعی بنیادوں پر چل رہی ہے۔اس معیشت سے لاکھوں نہیں کروڑوں دیہاڑی داروں اور چھوٹے کاروباری افراد اپنے رزق کا بندوبست کرتے ہیں۔اپنے گھر تک محدود ہوئے مجھ جیسے صحافی بھی ٹیلی فون رابطوں کے ذریعے مسلسل دریافت کررہے ہیں کہ ہماری معیشت کے کئی بنیادی دھندے مکمل طورپر ٹھپ ہوچکے ہیں۔ ہمارے مشترکہ خاندانی نظام اور حقوق العباد کے اجتماعی احساس کی بدولت فاقہ کشی کی ہولناک صورتیں اگرچہ نمودار نہیں ہورہیں۔حکومت نے بھی غریب ترین گھرانوں کو امدادی رقوم پہنچا کر صورتحال کو سنگین تر نہیں ہونے دیا۔اداس کن حقیقت مگر یہ ہے کہ صحتِ عامہ کا کوئی مستند ترین ماہربھی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ موجودہ صورتحال کا Cut Offلمحہ ممکنہ طورپر کب رونما ہوسکتا ہے۔چند قابل اعتبار ماہرین سے میری گفتگو ہوئی تو وہ بہت ہی محتاط انداز میں کم از کم ستمبر-اکتوبر2020کا تذکرہ کرتے رہے۔ان کی گفتگو پر اعتبار کروںتو دل یہ سوچ کر دہل جاتا ہے کہ مئی ،جون ،جولائی اور اگست کے مہینوں میں بھی ہمیں خوف سے دبک کر گومگو کے اسی عالم میں گزارنا ہوں گے جو مارچ کے اختتام سے نازل ہوا ہے۔ٹھوس معاشی حقائق کی بنیاد پر اس عالم کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔’’سمارٹ‘‘ لاک ڈائون کی ممکنہ صورتیں کیا ہوسکتی ہیں اس کے بارے میں ریگولر اور سوشل میڈیا پر سنجیدہ گفتگو ہونہیں رہی۔اُمید جگائے رکھنا محال محسوس ہورہا ہے۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.