The US Commission’s Anti-India Report

<--

امریکی کمشن برائے بین الاقوامی مذہبی نے اپنی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ میں پہلی بار بھارت کو اقلیتوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے اور تحقیقی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یہ مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔ امریکی کمشن کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کی اجازت بھی ہندوئوں کو دے دی گئی ہے۔ اس اجازت کی روشنی میں ہندو مسلمانوں اور دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں پر ظالمانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارتی پولیس بھی تشدد پسند ہندو عوام کی مدد کر رہی ہے۔ اس تمام حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھارت کو امریکہ نے اقلیتوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دے دیا ہے۔ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے اور بھارت میں متنازعہ شہریت بل پر شدید تنقید پر بھارت مذہبی نقشے پر تیزی سے نیچے آگیا ہے۔ یہ سب امریکی کمشن برائے بین الاقوامی آزادی کی رپورٹ میں درج ہے۔ 104صفحات کی اس تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کی حکومت مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے صریحاً خلاف ہے۔ بھارتی حکومت نے مؤدبانہ انداز میں بھارتی مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں۔ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پوری دنیا کو باور کرایا ہے کہ بھارت میں کرونا کی آڑ میں بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کرونا وائرس سے متاثرہ مسلمان مریضوںسے بھی امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے اس ساری صورتحال کے پیش نظر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اور اس تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کو خطوط ارسال کئے ہیں اور سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو ’’انسانی بم‘‘ قرار دے کر ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور بھارت کی انتہاپسند ہندو جماعت آر ایس ایس بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی پھیلا رہی ہے اور اس نفرت انگیزی میں مودیانہ حکومت اپنا منفی کردار ادا کر رہی ہے۔ مودیانہ سرکارنے سیکولر بھارت کو مکمل طور پر ہندو انتہاپسند ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ امریکی کمشن برائے مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں اس امر کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ مودیانہ پالیسی کے مطابق بھارت کو ہندو انتہاپسند ریاست ہونے کی تصدیق کر دی ہے، اس تمام منفی کارروائی میںمودیانہ کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے مودیانہ ٹریک ریکارڈ انتہائی خراب اور ناپسندیدہ ہے۔ نریندر مودی نے 1971ء میں سانحہ سقوط ڈھاکہ میں مکتی باہنی کی پاکستان توڑ تحریک میںمنفی کردار ادا کرنے کا اعتراف بھی کیا ہے اور گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں بطور وزیراعلیٰ گجرات کی حیثیت سے خود بھی شریک کار بنے رہے جس پر ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے اور اسی بنیادپر امریکی صدر نے مودی کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن بعدازاں صدر ٹرمپ نے اس پابندی کو ختم کردیا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو امریکہ بلا کران کی ہندوانہ پالیسیوں کی تعریف کر دی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھارتی وزیراعظم مودی کے مودیانہ اقدامات کی حمایت جاری رکھی تو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو جو حقوق اقوام متحدہ نے دیئے ہیں، وہ سب کے سب بے اثر ہو جائیں گے۔ تمام عالمی اداروں اور علاقائی اداروں نے یو این اور سلامتی کونسل سمیت بھارت میں مودیانہ کردار اوربھارتی یکطرفہ اقدام کا سخت نوٹس لیا ہے لیکن مودیانہ سرکار نے عالمی احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں پر مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ مودی سرکار نے بھارتی آئین کی دفعات 370اور 35اے کو بھارتی آئین سے حذف کر دیا ہے، ان دفعات میں بھارتی کشمیر کی الگ حیثیت کو تسلیم کیا گیاتھا اور اس میںبھارتی ہندوئوں کا داخلہ مسترد کیا گیا تھا۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور بھارتی آئین کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلمان ہی حکومت کرسکتے تھے۔ مودی سرکار نے مذکورہ بالا دفعات کو آئین سے حذف کرنے کے بعد بھارتی ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں کاروبار کرنے اور ملازمتیں حاصل کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اس آئینی ترمیم سے بھارتی ہندو مقبوضہ کشمیر میں آباد ہونے لگیں گے۔ اس کے نتیجے میں وہاں مسلمانوں کی اکثریت ختم ہو جائے گی اور ہندوستانیوںکی اکثریت ہو جائے گی۔ پوری دنیا میں اور اقوام متحدہ میں اس مودیانہ اقدام کی مذمت کی جا رہی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا سکیں۔ پاکستان میں جو کشمیر کا رقبہ آیا ہے وہاں ایک آزاد ریاست قائم ہے۔ ان کے صدر اور وزیراعظم پاکستانی صدر اور وزیراعظم سے الگ حیثیت رکھتے ہیں اور کشمیر کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور کمانڈرانچیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا ہے کہ بھارتی اشتعال انگیز اقدامات خطہ کے امن کیلئے خطرہ ہیں۔ کشمیریوں کی بہیمانہ قتل و غارت گری اور بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بنانا قابل قبول نہیں ہے۔ جنرل باجوہ نے اعلان کیا ہے کہ بھارت کو ہمیشہ منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ بھارتی فوج کو جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی اور اشتعال انگیزی پر بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ بھارت میں مودیانہ پالیسیاں جاری و ساری ہیں جن کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

About this publication