Efforts in the Kashmir Cause

<--

امریکہ کے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں سے ہونیوالی بھارتی زیادتیوں کا نوٹس لیتے ہوئے ان پر تشویش ظاہر کی اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکہ کے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کے کشمیر سے متعلق ان کمٹنس پر بھارت سٹپٹا گیا ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی مقبولیت کا گراف کم ہو رہا ہے، خاص طور پر کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ٹرمپ حکومت کی حکمت عملی پر امریکی میڈیا، صحت کے ماہرین اور ان کے سیاسی ناقدین سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ڈیموکریٹک امیدوار 2020 کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ کشمیر کے بارے میں جو پالیسی اپنائیں گے، وہ کم سے کم بھارت کے خلاف ہو گی۔ ان کا حالیہ بیان بھارت کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے۔

امریکہ کے علاوہ یورپی یونین بھی بھارت کی کشمیر پالیسی پر سخت نکتہ چینی کر رہی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے ارکان مقبوضہ کشمیر کو غیر قانونی طور پر بھارت کا حصہ بنانے اور کشمیریوں کو ایک سال سے لاک ڈائون میں رکھنے پر سخت نکتہ چینی کر چکے ہیں۔ وہ بھارت کی اس پالیسی کے نقاد ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل، او آئی سی اور انٹرنیشنل میڈیا بھی کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور اس کی جارحانہ پالیسی پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں۔

میرے کشمیری دوست علی رضا سید جو برسلز میں مقیم ہیں، نے گذشتہ دنوں فون پر مجھ سے پوچھا کہ کشمیر کے بارے میں ہماری کیا پالیسی ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ یورپ میں بھارت کے کشمیر میں مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت غصہ پایا جاتا ہے۔ یہاں کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی کشمیریوں کے ساتھ ہونیوالے ظلم اور ناانصافی پر احتجاج کر رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان ان حالات میں کشمیر سے متعلق ایک جارحانہ سفارتی مہم شروع کرنے سے کیوں ہچکچا رہا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ اور سفارتکاروں کو اس ماحول سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چین نے گلوان وادی میں بھارتی فوج کی جو دھنائی کی ہے اور بڑے پیمانے پر اسلحہ استعمال کئے بغیر، محض دنڈوں، لاتوں اور مکوں سے بھارتی فوجیوں کو جو ’’ پھینٹی‘‘ لگائی ہے اور جس طرح بھارتی فوج گلوان کے علاقے کو چھوڑ کر پیچھے ہٹی ہے، حالانکہ گلوان کا علاقہ فوجی حکمت عملی کے اعتبار سے بہت اہم ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت چین کا عسکری محاذ پر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ چین نے بھارت کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ بھارت کی کسی ایسی حرکت کو برداشت نہیں کرے گا جس سے چین کی سلامتی، خود مختاری یا اس کے سٹریٹجک مفادات پر ضرب پڑتی ہو۔ چین نے بھارت کو یہ میسج دیا ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کا ہر صورت میں دفاع کرے گا۔ خاص طور پر ون بیلٹ ون روڈ، سی پیک جس کا حصہ ہے پر کوئی کمپرومائز نہیں کرے گا۔ سی پیک کے اہم منصوبے کشمیر میں زیر تعمیر ہیں اس لئے بھی وہ بھارت کو کشمیر میں عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسے یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ اگر وہ کسی کی شہہ پر سی پیک کے راستے پر رکاوٹیں کھڑی کرے گا تو اسے اس کی بھاری قیمت دینا پڑے گی۔

جنوبی ایشیا میں پاکستان کے علاوہ چین بھارت کے پڑوسی ملکوں سے اپنے تعلقات کو مستحکم بنانے میں بھی مصروف ہے، وہ ان ملکوں میں جہاں بھارت کا اثر و رسوخ تھا، بھارت کو نکال باہر کرنا چاہتا ہے، اس کی ایک مثال نیپال ہے جسے بھارت اپنی کالونی سمجھتا تھا، اب بھارت اور نیپال کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ سری لنکا کو بھی بھارت اپنی ایک طفیلی ریاست سمجھتا تھا لیکن چین نے سری لنکا میں سٹریٹجک نوعیت کی سرمایہ کاری کر کے وہاں بھی بھارت کو کافی حد تک بے اثر کر دیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت ایک عرصے سے سپر طاقت بننے کی کوششیں کر رہا تھا لیکن چین نے اس کا یہ خواب خاک میں ملا دیا۔

خطے میں بھارت کیلئے مشکلات بڑھ رہی ہیں، چین نے اسے سفارتی اور سیاسی اعتبار سے بے بس کر دیا ہے۔ بھارت کی کشمیر پالیسی اور اس کا بدنامِ زمانہ سٹیزن ایکٹ بل دنیا کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کووڈ 19 کے باعث پاکستان اس طرح کے سفارتی رابطے اور سفارت کاری نہیں کر سکتا جو کہ کووڈ 19 سے پہلے ممکن تھی، اس دشواری کے باوجود کشمیر کے مسئلہ کو عالمی سطح پر موثر طور پر پراجیکٹ کرنے کیلئے سخت محنت کی ضرورت ہے، پاکستان کو موجودہ عالمی ماحول سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اور بیرون ملک سفارت کاروں کو ایک موثر اور جارحانہ سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ اسے امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں بھارت کی کشمیر پالیسی کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ ہم صرف ٹویٹس اور بیانات کے ذریعے اپنے سفارتی مقاصد شاید حاصل نہ کر پائیں، وسائل کی کمی کے باوجود قومی جذبے اور کمٹمنٹ سے کام لے کر ہم کشمیر کے ایشو کو عالمی سطح پر اس انداز میں پیش کر سکتے ہیں کہ وہ بھارت کیلئے وبالِ جان بن جائے اور ایسا کرنا مشکل نہیں ہے، بس ہمیں کشمیر کاز کیلئے کمٹمنٹ اور عملی کام کی ضرورت ہے۔

About this publication