حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے متعلق ملائشیا ء کے سابق صدر مہاتیرمحمد نے کہا ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میںہونے والا یہ معاہدہ دراصل امن سے پیچھے کی جانب واپسی کا سفر ہے اور یہ معاہدہ مسلم دنیا کو مخالف متحارب گروپوں میں تقسیم کرنے کا باعث بنے گا ۔ ایران اور ترکی نے بھی اس معاہدے کی کھل کر مخالفت کی ہے ۔ پاکستان نے ابھی تک بہت نپا تلا رد عمل دیا ہے جو کہ میرے خیال میں بالکل درست اقدام ہے۔ جذباتی نعرے اپنی جگہ لیکن خارجہ پالیسی اور عملی اقدامات ان اقدامات کے دور رس ممکنہ نتائج اور زمینی حقائق کی بنیاد پر کئے جانے چاہئیں۔ ترکی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے بلا شبہ اسرائیل کی کھل کر مخالف کر کے مسلم امہ اورپاکستانیوں کے دل جیتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود ترکی اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات مارچ 1949 سے قائم ہیں اور کئی دہائیوں سے ترکی،کی مصنوعات کا ایک بڑا خریدار اسرائیل ہے۔ عالمی تجارت پر نظر رکھنے والے مشہور ادارے ورلڈ ٹاپ ایکسپورٹس (WTEx) کے مطابق سال 2019 کے دوران ترکی نے اسرائیل سے 1.7 بلین امریکی ڈالر کی مصنوعات خریدی تھیں اور اسرائیل نے ترکی سے تقریباََ ساڑھے چار بلین ڈالر کی مصنوعات خریدی تھیں۔ شاید اسی لیے ترکی نے اس معاہدے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات کو تو یہ دھمکی لگائی کے کہ وہ دبئی کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر سکتا ہے لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات یا تجارت ختم کرنے کا نام نہیں لیا۔
اس( مبینہ) امن معاہدے کا اعلان امریکہ کے صدر نے اپنی ایک ٹوئیٹ کے ذریعے کیا۔ظاہر ہے کہ یہ معاہدہ خلیج میں امن کا ضامن ثابت ہوتا ہے کہ نہیں لیکن اس برس نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں امریکی صدر کے لیے ووٹوں میں اضافے کا سبب ضرور بنے گا۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کے امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات تینوں ممالک کو بہت سے مشترکہ خطرات کا سامنا ہے اور یہ معاہدہ انکو ان خطرات سے ملکر نبرد آزما ہونے میں مدد گار بنے گا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعدخود اسرائیل اور امریکہ کے مطابق ان کو جو خطرات درپیش ہیں ان میں سب سے پہلے اور سب سے بڑا خطرہ ’’نظریہ اسلام‘‘ ہے۔ معلوم نہیں کہ متحدہ عرب امارات اب کونسے خطرے سے نبٹنے میں امریکہ اور اسرائیل کے لیے مدد گار ثابت ہو گا۔ امریکی صدر نے آگے چل کر مزیدکہا ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں امن کے قیام کا باعث ہو گا۔ خدا جانے متحدہ عرب امارات اور خطے کے دیگر مسلم ممالک کونسے ’’ امریکی امن‘‘ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کیا ان کو نظر نہیں آتا کہ امریکہ اور اسکے حواریوں کی مہربانیوں سے در حقیقت اس وقت مشرق وسطیٰ تو کیا دنیا کا کوئی بھی مسلمان ملک مکمل طور پر پر امن نہیں ہے۔کسی کو بیرونی خطرات ہیں تو کسی کو اندرونی۔ افغانستان کا سب کو معلوم ہے۔ ایران اور ترکی بظاہر تو پر امن ہیں لیکن عملی طور پر دونوں ممالک کرد علیحدگی پسندوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ یمن میں القاعدہ ،اردن میں ’’ دولت اسلامی‘‘،سومالیہ ،لیبیا ، شام اور مالی سے لے کر چاڈ میں انوال اور سوڈان میں کردفان( سوڈانی حکومت اور سوڈانی پیپلیز لیبریشن موومنٹ کے درمیان جنگ) ۔ نائیجیریا، الجیریا، آزربائیجان سینیگال سمیت کوئی مسلمان ملک پُر امن نہیں ہے ۔ مشرق وسطیٰ تو اس وقت فلیش پوائٹ بنا ہوا ہی ہے۔ ان سب ممالک میں یہ سب کرنے والے دشمن سب کے سامنے ہیں اور کھل کر اقدامات کر رہے ہیں لیکن اس کے بعد بھی یہ مسلم ممالک اپنے حقیقی دشمنوں کی لگائی ہوئی آگ بجھانے کی بجائے ایک دوسرے کیخلاف ہی صف بندیاں کر رہے ہیںاورامریکہ اور مغربی ممالک سے اسلحہ اکٹھا کر کر کے اپنے دشمنوں کی تجوریاں بھی بھر رہے ہیں۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس معاہدے کا اعلان تو بلا شبہ اب ہو اہے لیکن امریکہ اگر عرب ممالک کو اتنا جدید اسلحہ فروخت کر رہا ہے ( گزشتہ برس بھی امریکہ نے متحدہ عرب امارات کو اربوں ڈالر کا جدید امریکی اسلحہ فروخت کیا تھا) تو اسے پہلے ہی یہ یقین دلایا گیا ہو گا کہ یہ اسلحہ کسی بھی صورت اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
مہاتیر محمد نے تو یہ کہا ہے کہ یہ معاہدہ مسلم دنیا کو مخالف گروپوں میں تقسیم کرنے کا باعث بنے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا عملی طور پر دو گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ایران، قطر اور ترکی کھل کر اسرائیل کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ سعودی عرب،متحدہ عرب امارات ، عمان ، بحرین اور مصر اسرائیل اور امریکہ کے کیمپ میں ہیں۔ مسلمان ممالک ( خاص طورپر وہ ممالک جہاں بادشاہتیں قائم ہیں) کی حکومتیں تو اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ کھل کر مل چکی ہیں لیکن دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ مستقبل میں اس بارے میں ان ممالک کی عوام کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ یاد رہے مارچ 1979 میںمصر کے صدر انورالسادات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔اکتوبر 1981 میں ان کے مخالفین نے انکو ایک فوجی تقریب کے دوران قتل کر دیا تھا۔ اور اس قسم کے اقدامات صرف مسلمان ممالک میں ہی نہیں ہوتے۔ نومبر 1995میں یاسر عرفات کے ساتھ معاہدہ کرنے والے مسٹر رابن کو صہیونیوں نے قتل کر دیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس ’’ اوسلو منصوبے ‘‘ کی مخالفت ، نفرت انگیزی اور اسلام دشمنی کو آج خود مسلم ممالک کے ساتھ امن معاہدے کرنے والے ’’مسٹر بنجمن نیتن یاہو‘‘ نے اپنی سیاست چمکانے اور الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کیاتھا۔
اس تمام صورتحال میں تمام مسلمانوں اور پاکستان کے لیے ایک تلخ لیکن واضح پیغام ہے کہ مسلمان حکومتیں ذاتی مفادات کی بنا پر تقسیم ہو چکی ہیں اور ’’متحدہ مسلم امہ‘‘ نام کی کوئی چیز اب عملی طور پر موجود نہیں ہے۔ جن ممالک نے مقبوضہ بیت المقدس کے لیے امریکہ یا اسرائیل کی زبانی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کی ان سے کشمیر کے لیے کوئی توقع رکھنا فضول ہی نہیں، حماقت ہو گی۔آج کی دنیا میں ہمیں ’’ملکی مفادات‘‘اور مشترکہ دشمنوں، دوستوں اور مفادات کی بنیاد پر خارجہ پالیسی اور اتحادی بنانے ہونگے ۔ دوسرا یہ کہ کسی بھی قسم کا جذباتی اقدام کرنے کی بجائے پہلے اپنے آپ کو معاشی اور فوجی لحاظ سے اتنا مضبوط بنانا ہو گا ہم بیانات جاری کرنے اور تقاریر کرنے کی بجائے کوئی ٹھوس عملی اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ اس وقت تک صبر اور زمینی حقائق پر مبنی خارجہ پالیسی ہی وقت کا تقاضہ اور عقلمندی ہے۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.