A Comparative Analysis of the US Election

<--

امریکی سیاسی تاریخ میں 3 نومبر 2020ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بننے جا رہا ہے امریکہ میں یہ دن انتخابات کا دن ہو گا جس میں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ Republican Party کے امیدوار کی حیثیت سے 1970 سے امریکی سیاست میں سرگرم سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے مابین جو Democratic Party کی طرف سے امیدوار ہیں صدارتی مقابلہ ہو گا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی فکر و نظر اور ان کی سیاسی سوچ کے مقابلے میں جو بائیڈن کے وسیع تر سیاسی تجربے ملکی اور خارجی امور پر ان کی ماہرانہ دسترس اور مساوی حقوق برائے رنگ و نسل اور مذاہب پر ان کا دو ٹوک مؤقف انہیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔

جوبائیڈن کی عوامی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ شعلہ بیان ہیں لفظوں سے کھیلنے کا انہیں ڈھنگ آتا ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور حکومت میں چونکہ نائب صدر کی ذمہ داریاں بھی نبھا چکے ہیں۔ اس لئے عوام کے جذبات و احساسات کا انہیں خوب ادراک ہے۔ ان سے گھل مل کر ان کی مشکلات اور مسائل معلوم کر کے ان کے مؤثر اور فوری حل کیلئے بھرپور سرگرم عمل بھی رہتے ہیں مگر انتخابات میں جوبائیڈن ابھی تک کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ اس کی بنیادی اور بڑی وجہ امریکی انتخابی نظام ہے۔ قارئین کو اگر یاد ہو تو 2016 کے امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن نے اپنے مد مقابل ڈونلڈ ٹرمپ سے تقریباً 30 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے تھے عوامی رائے بھی ان کے حق میں تھی مگر ہیلری کلنٹن زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کامیاب نہ ہو سکیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ میں ووٹوں کی برتری کے بجائے Electroal College نظام کے تحت کامیاب امیدوار کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ امریکی انتخابات کے نتائج اور متوقع امیدواروں کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کے بارے میں زیادہ تر اظہار چونکہ عوامی رائے شماری پر ہوتا ہے اس لئے امیدواروں کی اوپر نیچے مقبولیت کا گراف انتخاب کے آخری دن تک جاری رہتا ہے۔

’’الیکٹرول کالج‘‘ نظام ہوتا کیا ہے؟ یہ ایسا صدارتی نظام ہے جس میں ہر امریکی ریاست کی آبادی کے لحاظ سے کچھ ووٹ دیئے جاتے ہیں۔ 580 الیکٹرول ووٹوں میں 270 ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ ایروزونا‘ ورجنیا‘ مشیگن‘ ٹیکساس سمیت 14 دیگر ریاستوں میں کامیابی کے حصول کیلئے کم از کم نصف ووٹوں کا حصول امیدوار کیلئے ضروری ہوتا ہے۔

ٹرمپ اور جوبائیڈن کے مابین تین نومبر کو ہونے والا صدارتی مقابلہ اس مرتبہ زیادہ دلچسپ اس لئے بھی ہو گا کہ صدر ٹرمپ اپنے اس دور اقتدار میں کئی حوالوں سے متنازعہ حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ صحافیوں اور کالم نگاروں کی جانب سے کئے بیشتر سوالوں پر وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پریس کانفرنس کے دوران اپنی مخصوص انگلیوں کے مخصوص اشاروں سے اپنی ’’آوہ زاری‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے اکثر و بیشتر برہم دکھائی دیتے ہیں۔ ٹویٹ سے 24 گھنٹے الجھتے رہنا ان کی غالباً عادت کا حصہ ہے۔

اب جس روز سے COVID-19 نے امریکی عوام کو متاثر کیا ہے ٹرمپ وائرس کو دیکھتے ہوئے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے۔ اس موذی اور جان لیوا وائرس سے متاثرہ افراد کو گو 50 ارب ڈالر کی رقم بھی انہوں نے دی ہے مگر کرونا کے خوفناک نتائج کو کھلے عام تسلیم کرنے کے وہ آج بھی حق میں نہیں۔ اس وائرس کا موجد مبینہ طور پر وہ ابھی تک چائنہ کو قرار دے رہے ہیں۔

مارچ میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کرونا کو بہت جلد شکست دے دی جائے گی مگر اب جبکہ انتخابات میں گنتی کے دن رہ چکے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ کرونا سے مزید حالات خراب ہونے کا خدشہ ہنوز موجود ہے۔ ایک معروف امریکی یونیورسٹی کے ایک تجزیاتی اتدازے کے مطابق یہ انکشاف بھی اب کیا گیا ہے کہ انتخابات سے دو روز قبل یعنی یکم نومبر کو مبینہ طور پر کرونا سے 2 لاکھ 30 ہزار امریکی شہری ہلاک ہو چکے ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ کرونا کے خوف اور بے یقینی کی صورتحال کے پیش نظر لوگ ووٹ ڈالنے میں سستی کا مظاہرہ کریں ایسی صورتحال اگر پیدا ہوئی تو امریکی معیشت اور جمہوری اقدار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ادھر ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بائیڈن بدستور اپنا وعدہ دہرا رہے ہیں کہ صدارتی انتخاب اگر وہ جیت گئے تو ٹرمپ کی جانب سے 7 مسلم ممالک کے تارکین وطن پر امریکہ میں داخلے پر پابندی فوراً ختم کر دیں گے کیونکہ ان کے بقول مسلم ممالک پر اس طرح کی پابندی لگا کر ٹرمپ نے اپنے صدارتی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔

مذکورہ انتخابات میں امریکی ووٹروں کے اس بار کچھ تحفظات بھی ہوں گے۔ ٹرمپ کے حکم پر ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی طے شدہ حملے میں ہلاکت اور سیاہ فارم امریکیوں کیخلاف سفید فام امریکی پولیس کے بڑھتے تشدد پر گہری تشویش بھی 3 نومبر کے انتخابات پر یقینی طور پر اثرانداز ہو گی۔ سیاہ فام Gorge Floyed نامی امریکی شہری کی گردن پر پولیس افسر کی جانب سے مبینہ طور پر گھٹنا رکھنے کے بعد اسے موت کے گھاٹ اتارنے کا واقعہ‘ مجموعی طور پر پولیس کی بربریت اور بڑھتے نسلی تشدد کے واقعات بھی ووٹروں کی سوچ کا محور ہوں گے۔

ٹرمپ پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 46 سالہ جارج فلائیڈ کے خاندان سے گو گہری تعزیت کر چکے ہیں تاہم ان کا مبینہ طور پر یہ کہنا کہ لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو شوٹ بھی ہونا ہوتا ہے۔ امریکی سیاہ فام کمیونٹی کے زخموں پر نمک ڈالنے کے مترادف ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ ان پیچیدہ حالات میں ڈونلڈ ٹرمپ جیتتے ہیں یا شعلہ بیان اور خارجہ امور کے ماہر تصور کئے جانے والے جوبائیڈن اس مرتبہ امریکی صدر کا رتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

About this publication