A Lack of Unity in Muslim Countries and the ‘Greater Israel’ Plan

<--

مصر اور اردن، متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جبکہ مسلم ممالک ترکی اور ایران کی جانب سے یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کی گئی تاہم امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہائوس کے مشیر جیرڈ کشنر کا دعویٰ ہے عرب ممالک کی ایک قطار ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں ، معاملہ کچھ یوں ہے کہ اگلے برس مارچ میں اسرائیل میں نئے انتخابات ہونے جارہے ہیںاور ان انتخابات میں اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہوکو ممکنہ طور پر کامیابی دلانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے تاکہ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میںبالا دستی قائم کرنے کے امریکی منصوبے کا تسلسل قائم رکھا جاسکے اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عرب ممالک ایک ایک کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیتے ہیںتو ایسے میں دیگر اسلامی ممالک کہاں کھڑے ہوں گے جبکہ فلسطینی ریاست کا تحفظ اور بیت المقدس کی آزادی کا فلسفہ ہر ایک مسلمان کے جذبہ ایمانی کا خاصہ ہے ۔ مشرق وسطیٰ کا مستقبل جو بھی ہو لیکن یہ کھلی حقیقت ہے کہ مسلم ممالک میں ’’اتحاد‘‘ کا فقدان ہے جس کا فائدہ امریکا ہی نہیں بلکہ اسرائیل بھی خوب اٹھارہا ہے اگر مسلم ممالک میں بروقت اتحاد قائم نہیں ہوسکا تو وہ وقت دور نہیں جب اسرائیل مشرق وسطیٰ کا نیا تھانیدار ہوگا یعنی یہودیوں کے ’’گریٹراسرائیل‘‘ کے خواب پورا ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔لہذا وقت کاتقاضا یہی ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک ہوش کے ناخن لیں اور دنیا میں اپنی حیثیت منوانے کے لئے ایک’’ پلیٹ فارم ‘‘پر جمع ہوں تاکہ ایک ایسی متحد آواز میں اسلام دشمن قوتوں کو للکارا جاسکے ۔بہر کیف اسرائیل نے امن کے نام پر عرب ممالک کو ایک فریب میں مبتلا کر رکھاہے جسے امریکا کی آشیر باد حاصل ہے جہاں تک اسرائیل کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کیے جانے یا نہ کیے جانے کی بات ہے تو اس ضمن میں قائد اعظم محمد علی جناح کا اسرائیلی ریاست کے وجود کے حوالے یہ دو ٹوک موقف ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ’’ اسرائیل امت کے قلب میں گھونپا گیا ایک خنجر ‘‘ ہے یعنی بابا ئے قوم نے سیدھے الفاظ میں اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا ہے ۔

امت مسلمہ کو اب ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو سیاسی و معاشی طور پر مضبوط بنانے میں کامیاب ہوسکے بصورت دیگر مغربی دنیا بالخصوص امریکہ اور اسرائیل گٹھ جوڑ مشرق وسطیٰ ہی کو نہیںبلکہ پورے عالم اسلام کو معاشی اعتبار سے مفلوج کردے گا جو فکری اور سماجی اعتبار سے بھی ایک بڑی تباہی سے کم نہیں ہوگی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عربوں کے بعد عجمی ممالک کب تک اور کیسے امریکہ اور اسرائیل کا دبائو برداشت کر پاتے ہیںکیونکہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اس وقت تک مکمل ہوتے نظر نہیں آتے جب تک صہیونی نقشوں کے مطابق اس خطے میں گریٹراسرائیل قائم نہیں ہو جاتا اور ان نقشوں کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر، اردن، شام اور لبنان کا مکمل علاقہ عراق کا بڑا حصہ ، ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ سمیت سعودی عرب کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ اسرائیل سپر پاور امریکہ کے دبائو کے ذریعے عرب علاقوں پر اپنے موجودہ غاصبانہ قبضے کو عرب حکمرانوں سے تسلیم کروا رہا ہے جیسے ہی اس نے یہ ہدف حاصل کر لیا تو پھر گریٹراسرائیل کا قیام خاکم بدہن اس کے لئے شاید کوئی مشکل کام نہ رہے۔ درحقیقت اسرائیل کو تسلیم کرنا مسئلہ کشمیر سے ہاتھ دھو دینے کے مترادف اور امت مسلمہ سے غداری اور اپنے قبلہ اول بیت المقدس کے حق سے دستبرداری تصور ہو گی۔کیونکہ جن مسلم ممالک کو اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جنگ لڑنا تھی وہ باہم دوست و گریبان ہو کر اسرائیل کی جھولی میں جا گرے ہیں اور اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں ۔ افسوس دور حاضر میں امت مسلمہ کا اصل مسئلہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس انٹرنیشنل لیول کا کوئی ایسا جاندار اور مئوثر ادارہ یا فورم موجود نہیں جو مسلمانوں کے دلی جذبات کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کرسکے۔ ماضی قریب میں اس خطے میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کا سرسری جائزہ لیں تو یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت قرار دیا جانا اور پھر امریکہ کا وہاں اپنا سفارت خانہ کھلوانااور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے مترادف نام نہاد’’ڈیل آف دی سنیچری‘‘ معاہدے کا منظر عام پر آنا اہم ترین واقعات تھے جس پر بدقسمتی سے پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک نے بھی مزاحمتی بیانات سے آگے کچھ نہیں کیا۔مسجد اقصیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اسراء و معراج ہے اوراس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ناقابل قبول ہے ۔

About this publication