Is This the US Election or … ?

<--

امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بارے میں جو خبریں آ رہی ہیں اور جو منظر نظر آ رہا ہے، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ امریکہ کا الیکشن نہیں بلکہ یہ کسی تیسری دنیا کے ایسے ملک کا الیکشن ہے جہاں جمہوری نظام اور جمہوری ادارے بہت کمزور ہیں، جہاں عمومی طور پر انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے اور انتقالِ اقتدار مسئلہ بن جاتا ہے۔ گذشتہ سو سوا سو سال سے امریکہ دنیا کی ایک سپر طاقت بن کر ابھرا ہے، سرد جنگ کے دور میں جب فری ورلڈ کا امریکہ لیڈر تھا اور دوسری طرف سوویت یونین کیمونزم کا سرخیل تھا تو اس وقت امریکہ جمہوری نظام ،آزادانہ ووٹنگ، جمہوری اقدار، شہری آزادیوں، میڈیا کی آزادی کا علمبردار تھا۔ یورپ‘ ایشیا ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک ہمیشہ امریکہ کو جمہوری اقدار کا محافظ سمجھتے تھے۔ امریکہ نے جمہوریت کو فروغ دینے، شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ دینے کیلئے پچھلے کم و بیش ستر سال میں تیسری دنیا کے کئی ممالک میں مداخلت کر کے ایسے حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کیا، جو آمرانہ پالیسیوں پر عمل کر رہے تھے۔ امریکہ کو دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا سمبل سمجھا جاتا رہا ہے۔

2020 کے صدارتی انتخاب میں امریکہ میں کچھ ایسی روایات قائم ہو رہی ہیں جو امریکہ کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس الیکشن میں صدر ٹرمپ نے شروع سے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ انتخابات ’’رِگ‘‘ ہونگے، یہ انتخابات شفاف نہیں ہونگے اور وہ ان انتخابات کے صحیح نتائج حاصل کرنے کیلئے عدالت جائینگے۔ عدالت میں قانونی جنگ لڑنے کیلئے انہوں نے قانونی ماہرین کی ٹیم تشکیل دیدی ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ وہ وائٹ ہائوس نہیں چھوڑیںگے۔ کسی بھی امریکی صدر نے اس طرح کا رویہ کبھی اختیار نہیں کیا۔ یہ رویہ دنیا کے ان ممالک کے حکمرانوں کا ہے جہاں جمہوری نظام اور جمہوری اقدار بہت کمزور ہیں۔ امریکہ میں اس ردعمل کی توقع کسی کو بھی نہ تھی۔ 2016 میں صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد انہوں نے جو رویہ اور پالیسیاں اپنائیں وہ متنازعہ رہی ہیں۔ انہوں نے آتے ہیں امریکہ میں امیگریشن قوانین کو سخت کرنے کا اعلان کیا، مسلمانوں کے خلاف بھی انہوں نے کئی بیانات دیئے۔ انکے انتخاب پر سب سے زیادہ خوشی امریکہ کے سفید فام نسل پرستوں کو ہوئی۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے بھی یہی محسوس ہوا کہ وہ امریکہ میں سفید فام امریکیوں کی بالا دستی چاہتے ہیں۔ انہی کے دورِ صدارت میں جارج فلائیڈ کو پولیس نے قتل کیا جس کے نتیجے میں امریکہ میں پرتشدد ہنگامے ہوئے اور سیاہ فام اقلیت کو یہ احساس ہوا کہ انکے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے اور انکے شہری حقوق غصب کئے جا رہے ہیں، انکے جان و مال کی حفاظت نہیں ہو رہی۔ نسلی تعصب صدر ٹرمپ کے دور میں ہی ابھرا۔

جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے صدرٹرمپ نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی، اس حمایت میں وہ اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جس سے مسلمانوں کے جذبات سخت مجروح ہوئے۔ انکے داماد جیرڈ کشنر اور اسکے ساتھیوں نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ، بحرین اور سوڈان کے درمیان دوستی کی داغ بیل ڈالی جس سے فلسطینی عوام کو سخت دکھ ہوا اور ان کی حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کو دھچکا لگا۔

صدر ٹرمپ نے خارجہ معاملات میں جو پالیسیاں اپنائیں ان سے بھی امریکہ کو کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوا۔ چین کے ساتھ شروع کی گئی تجارتی جنگ سے بھی امریکہ کو کوئی بڑا معاشی یا تجارتی فائدہ نہیں ہوا۔ دنیا میں یہ احساس پیدا ہوا کہ صدر ٹرمپ نے ایک اور سرد جنگ شروع کر دی ہے۔ بر صغیر میں انھوں نے ہندوستان اور مودی کو اپنا حلیف بنایا اور بھارت کے ایک فاشسٹ حکمران جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، کو جپھے ڈالنے شروع کر دیئے۔ بحر ہند اور بحر الکاہل میں انھوں نے چین کو نیچا دکھانے کیلئے نیا اتحاد قائم کیا جس میں ہندوستان کو اہم رول دیا گیا۔ چین کی مخاصمت میں صدر ٹرمپ نے بھارت کو فوجی اعتبار سے بھی طاقت ور بنانا شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں دونوں ملکوں میں ہونیوالا دفاعی سمجھوتہ اس خطے میں عدم توازن کا سبب بن گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں سے امریکی عوام اور دنیا کے مختلف ممالک سخت پریشان رہے۔ اپنے ملک کے اندر انہوں نے کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد جو پالیسیاں اپنائیں اور جو انداز اختیار کیا وہ بھی حیران کن تھا۔ انھوں نے امریکی عوام کو کووڈ 19 کے خطرہ سے پوری طور پر آگاہ نہیں کیا۔ کرونا وائرس کیخلاف انھوں نے کیا سوچا اور کیا کیا؟ اس کی تفصیل ممتاز امریکی صحافی باب وڈ ورڈز کی کتاب ’’ The Rage ‘‘ میں بیان کی گئی ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں امریکی کووڈ 19 سے موت کے منہ میں چلے گئے اور کروڑوں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے۔ 2020 کے صدارتی انتخاب سے پہلے ہی سیاسی تجزیہ کاروں اور پنڈتوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ صدر ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا بہت مشکل ہے۔ انکے حریف امیدوار جو بائیڈن اور ڈیموکریٹک پارٹی نے انکی داخلی پالیسیوں خاص طور پر کرونا وائرس سے نمٹنے کی انکی حکمت عملی کو ہدف تنقید بنایا اور سفید فام نسل کی بالا دستی کیلئے انکی سوچ اور پالیسیوں کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا۔ انکے سیاسی مخالفین نے ان پر یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے امریکہ کو بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے بھی بعض سینئر رہنمائوں نے صدر ٹرمپ پر نا اہلی کے الزامات لگائے اور انھیں امریکہ کی صدارت کیلئے ان فٹ قرار دیا۔ یہ وہ تمام عناصر تھے جن کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی فتح ممکن نظر نہیں آ رہی تھی۔ شاید خود بھی انکو احساس تھا کہ وہ دوبارہ منتخب نہیں ہو سکیں گے۔ انھوں نے جو رویہ اس الیکشن میں اپنایا، وہ کسی امریکی صدر کا رویہ نہیں لگتا، یوں لگتا ہے کہ یہ الیکشن کسی ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں جمہوریت اور جمہوری نظام لوگوں کیلئے اجنبی ہے، جہاں انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوتی ہے اور انتقال اقتدار پرتشدد رنگ اختیار کر جاتا ہے۔ اب تو یہ بھی سننے اور پڑھنے میں آرہا ہے دونوں صدارتی امیدواروں کے حامی مسلح ہوکر پولنگ سینٹرز کے باہر گھوم رہے ہیں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کسی ایک امیدوار کی شکست کے اعلان کے بعد مسلح تصادم بھی ہوسکتا ہے جس میں جانیں تلف ہونے کا خدشہ ہے ۔ یہ مناظر عمومی طور پر ان ملکوں میں دیکھے جاتے ہیں جہاں جمہوریت ایک اجنبی نظام ہوتا ہے۔

About this publication