There is no parallel to American hypocrisy in the world. There are numerous instances where there is a disconnect between words and actions. Americans can at any instance take steps that are immoral, inhumane and downright tyrannical, for the sake of their interests. They are unparalleled when it comes to trying to justify their actions by presenting false justifications and inappropriate reasons; in fact, when it comes to that they do not even distinguish between friends and foes. America’s enemies are sometimes able to escape its violence, however, its friends have to be vigilant all the time because the U.S. is always trying to test its allies and make them fail. Unfortunately, Pakistan is currently also considered a friend of the United States and is a recipient of American “generosity.”
America has very cleverly pulled Pakistan into the so-called “war on terror” and has engulfed Pakistan in flames and bathed it in blood, so Pakistan is actually in a state of war. American double-dealing has reached its height; on one hand, it has entangled the Pakistani army with Taliban fighters in rural and urban areas and on the other hand, it is providing financial support and arms to militants in a different part of the country while continuing drone attacks. It is also involved in ruining the Pakistani economy. Now the Americans are also bent on destroying Pakistan’s nuclear assets. They want to deprive Pakistan of atomic weapons so that the country becomes totally defenseless. This would make it an easy target for India and they would be able to eliminate an Islamic atomic thorn from its side forever. Towards this end, America is always conducting drone attacks and demanding that Pakistan “do more” so that one day, India would be able to stand up against Pakistan. It has declared fighters in Pakistan its enemies and is attacking them while trying its utmost to make a peace deal with the Taliban in Afghanistan. It is crystal clear that America has lost the war in Afghanistan. American commanders have admitted to their defeat and are looking for a safe exit, which is not currently available to them. The American economy has been decimated by the capitalist system, under the control of Jews. America was already economically trapped, but its involvement in Iraq, Afghanistan and other countries has taken care of whatever was leftover. It has nothing to show for its expenditure of trillions of dollars and even now, it is spending billions of dollars a day in those countries on war-related expenditures. Because of this, its debt has ballooned to between nine and 12 trillion dollars, especially as the Afghanistan war has broken its back. America is so imprudent that it lets itself be played by the Jews, and it is consequently talking losses in blood and treasure and is doing nothing about it. It is so unwise that there is no supply or military convoy that is safe in Afghanistan; it has to bribe the Taliban into not attacking its convoys. The destruction of the capitalist system was predicted in “This Century’s Economic Revolution,” published in 2006.
The American economy is like one of Shah Baloch’s trees which has a hollowed out trunk, dead leaves and rotten roots, this tree can at any time fall, and it will also take down with it all the nations that are resting under it; only an MBCS system can rejuvenate the U.S. economy.
I did not make this prediction based upon America’s military expenditures but after surveying its economy; the destruction of the economic system has been revealed to the whole world now. The countries that follow the capitalist system are faced with an extreme crisis now, and these conditions have persisted. MBCS is the system I came up with after conducting research and it is mainly intended for Pakistan, but I conducted research using the U.S. economy and sent it to a university in America, and they gave me three doctorate degrees. I voluntarily presented the same system to the Pakistani government; by utilizing this system, we can be free of American economic assistance in 30 years. After all, the sole purpose of American influence in Pakistan is the economic assistance they provide us, and by utilizing this system, we will become self-sufficient. When we do not need U.S. help, it will still need our help to establish itself in South Asia and then it will come begging to us; after all, it is Pakistan that is the gateway to Asia. When we just stop supplying them in Afghanistan for one day, it creates a crisis for American and NATO forces there. America is a superpower right now, but so was the Soviet Union, and after its economic collapse its borders shrunk and people were begging for a loaf of bread in Moscow. The same fate can befall America; its corruption has been exposed.
All that remains to be seen is when will it start to beg? Like Russia in 1990, it has fallen into the hole it has dug up for others. Afghanistan is about to become another Vietnam, and to save itself from total annihilation it will have to spread its hands in front of Pakistan. However, this is dependent on Pakistan becoming an economic as well as an atomic power, and then it will not need to rely upon the Kerry-Lugar bill, the IMF or the Friends of Pakistan group.
امریکہ پاکستان سے بھیک مانگے گا
امریکی منافقت دنیا بھر میں ضرب ا لمثل بن چکی ہے، قول و فعل میں تضاد کی جتنی مثالیں امریکہ نے قائم کی ہیں وہ ایک ریکارڈ کا درجہ رکھتی ہیں۔ امریکی اپنے مفادات کی خاطر کوئی بھی غیر اخلاقی، غیر انسانی اور ظالمانہ اقدام کبھی بھی کسی کے خلاف اٹھا سکتے ہیں اور اپنے کسی بھی فعل کےلئے وہ جھوٹی تاویلیں اور بھونڈے جواز تراشنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اس سلسلے میں وہ دوست دشمن کے تکلف میں نہیں پڑتے۔ دشمن تو خیر کبھی کبھار اس کی چیرہ دستیوں سے بچ بھی جاتے ہیں لیکن اس کے دوستوں کی ہر وقت جان پر بنی رہتی ہے کیونکہ امریکہ ہر وقت اپنے دوستوں کو کسی نہ کسی امتحان سے گزار کر تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی امریکہ کے دوستوں میں ہوتا ہے چنانچہ وہ بھی اس وقت امریکہ کی متعدد ”مہربانیوں“ کی زد میں ہے۔ امریکہ نے اپنے اس دیرینہ دوست کو دہشت گردی کےخلاف نام نہاد جنگ میں بڑی عیاری سے گھسیٹ کر آگ و خون میں نہلا دیا ہے اور پاکستان اس وقت حقیقی معنوں میں میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ امریکہ کی مکاری عروج پر ہے، ایک طرف قبائلی اور شہری علاقوں میں پاکستانی فوج کو طالبان جنگجوﺅں کے ساتھ الجھا کر شاباشیاں دے رہا ہے، دوسری طرف مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کو اسلحے اور ڈالروں سے نواز رہا ہے، ساتھ ساتھ ڈرون حملے بھی جاری ہیں اور پاکستانی معیشت کا جنازہ نکالنے کی سازشیں بھی ہو رہی ہیں۔ اب امریکی ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کے جوہری اثاثوں کو بھی تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کر کے مکمل طور پر بے دست و پا کر دیا جائے اور اپنے روایتی دشمن بھارت کے لئے ترنوالہ بنا دیا جائے تاکہ یہ اسلامی ایٹمی کانٹا ہمیشہ کیلئے راستے سے صاف ہو جائے اور بھارت اس خطرے سے بے نیاز ہو کر چین کے خلاف یکسوئی سے سینہ تان کر کھڑا ہو جائے۔ امریکہ نے کتنی چالاکی سے ہمیں اپنی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتا بھی ہے، ڈو مور Do More کے مطالبے بھی کرتا ہے اور ڈرون حملوں کے علاوہ اپنے وزیروں، مشیروں اور جرنیلوں کو اسلام آباد بھیج کر دھمکاتا بھی ہے۔ وہ پاکستان میں جنگجوﺅں کو اپنا دشمن قرار دے کر ان پر حملے کرتا ہے لیکن خود افغانستان میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی سرتوڑکوششیں کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے اور اب باعزت فرار کے منصوبے بنا رہا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی کوشش یہ بھی ہے کہ جاتے جاتے وہ پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کر کے اپنا دست نگر بھی بنائے رکھے کیونکہ اس اہم خطے میں اسے پاکستان کی ضرورت کسی نہ کسی حوالے سے درکار ہوگی۔ جہاں تک افغانستان میں جنگ ہارنے کی بات ہے تو اس میں اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا ہے۔ امریکی فوج کے کمانڈر اپنی شکست کا اعتراف کر چکے ہیں اور محفوظ راستے کی تلاش میں کوشاں ہیں جو انہیں فی الحال میسر نہیں ہے۔ سرمایہ داری نظام کا حامل امریکہ معاشی لحاظ سے تباہ ہو چکا ہے۔ صہیونی شکنجے میں جکڑا ہوا امریکہ پہلے ہی معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا تھا رہی سہی کسر عراق، افغانستان اور دیگر ممالک میں جنگی مہمات نے پوری کر دی جہاں کھربوں ڈالر جنگ میں جھونکنے کے بعد بھی اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اب بھی ان ممالک میں اس کے جنگی اخراجات پر روزانہ اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے امریکی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور وہ کھربوں ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔ امریکہ اس وقت 12.9 ٹریلین ڈالر کا مقر وض ہے۔ افغانستان کی جنگ نے تو خصوصاً اس کی کمر توڑ دی ہے۔ امریکہ کتنا بے وقوف ملک ہے کہ صہیونی ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنا جانی ومالی نقصان کرائے جا رہا ہے اور حالات کا ادراک نہیں کر رہا۔ اس بے وقوف ملک کا یہ حال ہے کہ افغانستان میں اس کا کوئی رسد کا قافلہ، یا فوجی کانوائے محفوظ نہیں ہے۔ اسے اپنے قافلوں یا فوجیوں پر حملے نہ کرنے کے عوض طالبان کو رشوت دینی پڑ رہی ہے۔ پہلے اسے ڈالر دینے پڑتے ہیں تب جا کر اس کے تیل، اسلحہ، راشن اور دیگر ضروریات کے قافلے کسی علاقے سے گزرتے ہیں۔ یعنی وہ جن طالبان کے خلاف لڑ رہا ہے، اپنی سپلائی برقرار رکھنے کےلئے انہی کو رشوت دے رہا ہے۔ اس چیز کو بے وقوفی یا منافقت میں سے کوئی بھی اچھا نام دیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کی تباہی کی پیشنگوئی میں سے 2006ءمیں اپنی کتاب” موجودہ صدی کا اقتصادی انقلاب“ میں یہ کہہ کر کی تھی۔
” امریکہ کی معیشت کی مثال شاہ بلوط کے ایک ایسے بوسیدہ درخت کی مانند ہے جس کے پتے مرجھا چکے ہیں تنے کھوکھلے ہو چکے ہیں اور جڑیں گل سڑ گئی ہیں۔ یہ دیوقامت درخت کسی بھی وقت دھڑام سے گر سکتا ہے۔ اور یہ ان تمام قوموں کو بھی لے ڈوبے گا جو اس کی شاخوں تلے آرام کر رہی ہیں۔ صرفMBC نظام ہی ایک ایسی کھاد ہے جو اس درخت کو زندگی لوٹا سکتی ہے“۔
یہ پیشنگوئی میں نے امریکہ کے جنگی اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کی تھی بلکہ میں نے امریکی معیشت کا جائزہ لیکر یہ بات کہی تھی اور اگلے دو تین سالوں میں دنیا نے سرمایہ داری نظام کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی، وہ ممالک جو سرمایہ داری نظام سے وابستہ تھے انہیں بھی بدترین اقتصادی بحران نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ MBCS میرا تخلیق کردہ فارمولا ہے جو بنیادی طور پر پاکستان کےلئے بنایا گیا ہے لیکن میں نے اسے امریکی معیشت کے ساتھ منسلک کر کے جائزہ لیا اور اسے مقالے کی شکل میں امریکی یونیورسٹی کو بھجوایا۔ جنہوں نے تین ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دیں۔ یہی وہ فارمولا ہے جو میں نے رضار کارانہ طور پر حکومت پاکستان کو پیش کر دیا ہے۔ اس کی بدولت ہم صرف30 دنوں میں امریکہ کی معاشی غلامی سے نجات پا سکتے ہیں۔ امریکہ ہمیں محض اسی وجہ سے تو بلیک میل کر رہا ہے کہ ہم اپنی معاشی ضروریات کےلئے اسکے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔ جب ہمیں اس کی ضرورت نہیں رہے گی تو وہ کشکول اٹھا کر ہم سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا۔ کیونکہ اسے ہماری ضرورت ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں میں مستقل قدم جمانے کےلئے اسے پاکستان کی مدد کی ہر حال میں ضرورت ہے، یہ پاکستان ہی ہے جو جغرافیائی لحاظ سے ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ ہم صرف ایک دن کےلئے امریکی اور نیٹو افواج کےلئے رسد کی فراہمی روک دیں اور تیل کی سپلائی منقطع کر دیں تو انہیں افغانستان میں جانوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ لیکن وہ ایک سپر طاقت سہی لیکن سویت یونین بھی تو سپر پاور تھا، روس بھی تو اپنے وقت کا فرعون تھا، اس کی معاشی تباہی نے اس کی جغرافیائی حدود کا بھی شیرازہ منتشر کر دیا تھا اور ماسکو میں لوگ ایک ڈبل روٹی کےلئے در در کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہی حال امریکہ کا ہو سکتا ہے، اس کی منافقت اور عیاری کا پردہ فاش ہو چکا ہے۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ 1990ءکے روس کی طرح وہ کب کشکول اٹھاتا ہے، اس نے جو گڑھے دوسروں کے لئے کھودے تھے، اب خود ان میں گر چکا ہے۔ افغانستان اس کیلئے ویت نام بننے والا ہے اور خود کو مکمل تباہی سے بچانے کےلئے امریکہ کو پاکستان کے سامنے دست سوال دراز کرنا ہی پڑے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ معاشی طاقت بھی بن جائے جسے نہ تو کیری لوگر بل کی مونگ پھلی جتنی امداد کی ضرورت ہو اور نہ ہی آئی ایم ایف اور فرینڈز آف پاکستان کے سہاروں کا محتاج ہو۔
This post appeared on the front page as a direct link to the original article with the above link
.