General Ashfaq Parvez Kayani, who truly loves Pakistan, used to warn us to not become too fond of America. He said that America will eventually betray us. He told this to Pervez Musharraf as well. Kayani’s warning turned out to be true. After having killed 35,000 of our civilians and soldiers and having caused $70 billion of damage to our society, America has now begun threatening us. The entire country has become anxious in the face of these recent threats. Chairman of the Joint Chiefs of Staff Mike Mullen has blamed Pakistan for spreading terrorism in Afghanistan. He said that through the use of the Haqqani network, the ISI (Inter-Services Intelligence) has been launching attacks in Kabul.
America’s shameful accusations and threats come at a time when they have eliminated financial aid to us, and when 10 million Pakistanis are homeless. The U.S. has been against the ISI because the ISI is on the side of the Pakistanis. America has wanted the ISI to always be on its side, just as it was when they were fighting the Soviets. The U.S. Secretary of Defense Leon Panetta is a very hot-headed man and never stops threatening us.
Our leaders should not have kept quiet after the Abbottabad incident. They chose to engage in “sweet talk” and kept saying that “America still needs us.” If they had talked aggressively with America then, it would not be issuing threats to us now. These male leaders were not as strong as our female leader in the past. In 1989, when spy agencies had warned Benazir Bhutto of a possible attack in Quetta by Israel and India, she sent Foreign Minister Yaqub Ali Khan to warn India. After this message, India and Israel did not go through with their plans. This brave woman leader also stood up against America.
The question we must ask is, how should we respond when America launches drone attacks on us? Are our army and government ready to tackle America? The Pakistani public has already sacrificed a lot and continues to stand by its army. America continues to fight its war here. The terrorist acts over the past 10 years have terrified America. U.S. President Obama is facing a lot of pressure from his own people. In light of these conditions, they can do anything to us. According to one newspaper, only two votes were cast in favor of Pakistan in the U.S. Senate when it was debating whether to send additional financial aid to Pakistan.
We cannot be soft in the face of America’s new threats. Our leaders must let them know that if they ever interfere with our sovereignty again (as they did in Abbottabad), we will engage in serious retaliation. Our country has atomic weapons not so that it can use them in the future, it has them so that it can threaten others with them and keep them frightened. The Pakistani government must become friends with China and Saudi Arabia. Opposition leader Nawaz Sharif highlighted some of these sentiments in a press conference. President Zardari should also wake up. He needs to consult with the Pakistani people and talk openly about America’s new threats. This will show America that we will no longer remain quiet.
I wish that our leaders were as wise as Quaid-e-Azam (Muhammad Ali Jinnah). Jinnah asked us to be independent and peaceful, saying that “our object should be peace within, and peace without.” Our leaders, unfortunately, are too busy following their own interests and those of America, instead of doing what is best for Pakistan. As for the issue of America’s financial aid, I am reminded of Iqbal’s poem that says that it is better to die than to be a stranger’s slave.
امریکہ کی کھلی دھمکی
| ـ 1 دن 5 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
قیوم نظامی
پاکستان سے سچی محبت کرنے والے صحافی، سیاست دان اور دانشور جنرل ضیاءالحق سے کہتے تھے کہ امریکہ سے یاری نہ لگائیں یہ کام نکلنے کے بعد بے وفائی کرے گا۔ حب الوطنی پر مبنی یہی سنجیدہ رائے جنرل پرویز مشرف کو بھی دی گئی۔ پاکستان سے محبت کرنے والے افراد اور حلقے ایک بار پھر سرخرو ہو رہے ہیںکیونکہ ان کی رائے درست ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ 35 ہزار سول اور فوجی پاکستانی شہید کرانے اور پاکستان کو 70 ارب ڈالر کا معاشی نقصان پہنچانے کے بعد کھلی دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ یہ دھمکیاں پاکستان کی وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے امریکی دورے کے بعد سامنے آئی ہیں جن سے پوری قوم تشویش اور اضطراب کا شکار ہو گئی ہے۔ چیئرمین جوائینٹ چیف آف سٹاف کمیٹی مائیک مولن نے براہ راست اور دو ٹوک الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے اور کابل پر حملہ آئی ایس آئی کی مدد سے ہوا اور اس مقصد کے لیے حقانی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا ہے۔ امریکہ نے روایتی بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت مالی امداد کو مشروط کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے ایک کروڑ شہری کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ آئی ایس آئی تو امریکہ کے دل میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے کیونکہ یہ خفیہ ایجنسی اپنے مینڈیٹ کے مطابق پاکستان کے لانگ ٹرم مفادات کا ہر قیمت پر دفاع کرتی ہے جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ آئی ایس آئی امریکہ کا اسی طرح ساتھ دے جیسے اس نے روس کے خلاف افغان جنگ کے دوران دیا تھا۔ امریکہ کے وزیر دفاع لیون پینٹا بڑے سرگرم اور متحرک ہیں اور پاکستان کو دھمکیاں دینے میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع احمد مختار پر اسرار طور پر خاموش ہیں نہ سنائی دیتے ہیں اور نہ دکھائی دیتے ہیں۔
ایبٹ آباد میں امریکی جارحیت کے بعد پاکستان اگر موقع کے مطابق شدید رد عمل کا اظہار کرتا تو آج امریکہ کو کھلی دھمکیاں دینے کی بھی جرات نہ ہوتی ۔ وزیر اعظم پاکستان نے نہایت ”ماٹھا بیان“ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”امریکہ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا تو وہ ہمارے بغیر بھی نہیں رہ سکتا“۔ مرد وزیر اعظم سے خاتون وزیر اعظم دلیر نکلی۔ 1989ءمیں جب خفیہ ایجنسیوں کو یہ مصدقہ اطلاع ملی کہ بھارت اور اسرائیل کہوٹہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو انتہائی سخت اور دلیرانہ پیغام کے ساتھ بھارت بھیجا۔ اس پیغام کے بعد بھارت اور اسرائیل کو کہوٹہ پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوسکی۔ خاتون وزیر خارجہ نے بھی امریکہ کے خلاف دلیرانہ بیان دیا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا امریکہ وزیرستان پر حملہ کرے گا وہ تو پہلے ہی ڈرون حملے کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی فوج اور حکومت امریکہ کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان کے عوام تو پہلے ہی قربانیاں دے رہے ہیں اور پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے ۔ دس سال کے بعد دہشت گردی کے بڑے واقعات نے امریکہ کے ہوش اڑا دئیے ہیں۔ امریکی صدر اوبامہ سخت اندرونی عوامی دباﺅ کا شکار ہیں۔ امریکی معیشت زوال کا شکار ہے ان حالات میں ہارا ہوا جواری کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق جب امریکی سینٹ میں پاکستان کی امداد کو مشروط بنانے کی قرارداد پیش کی گئی تو پاکستان کے حق میں صرف دو ووٹ ڈالے گئے جب سے حسین حقانی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا گیا ہے امریکہ میں پاکستان دوست لابی کمزور ہوئی ہے۔امریکہ کی کھلی دھمکی کے بعد لازم ہے کہ پاکستان جارحیت کو روکنے کے لئے مہم جوئی نہیں بلکہ ٹھوس دفاعی حکمت عملی ترتیب دے اور زمین پر نظر آنے والے دفاعی اقدامات اُٹھائے تاکہ امریکہ کو یہ یقین ہو جائے کہ اگر اس نے ایبٹ آباد آپریشن کی طرح پاکستان کی آزادی اور خود مختاری پر حملہ کیا تو پاکستان ہر قیمت پر امریکہ کو سخت جواب دے گا۔ ایٹم بم استعمال کرنے کے لئے نہیں بلکہ دشمنوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں بشرطیکہ عسکری اور سیاسی لیڈر اس کے اہل ہوں۔ امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں بلا کر مائیک مولن کے دھمکی آمیز بیان کی وضاحت طلب کی جانی چاہیئے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر منتخب عوامی نمائیندوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ سعودی عرب اور چین سے ہنگامی مشاورت کی جائے۔ سفارت کاری میں تیزی لانے کے لیے سفیروں کو متحرک کیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر جناب نواز شریف نے پریس کانفرنس میں عوام کے جذبات کی ترجمانی کر تے ہوئے حکومت کو اس اہم قومی مسئلہ پر بحث کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری بھی چپ کا روزہ توڑ کر آئینی اور جمہوری فریضہ پورا کرتے ہوئے قوم سے خطاب کریں اور پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیں۔ ان اجتماعی اقدامات سے ہی دفاع کے بارے میں قومی اتفاق رائے سامنے آئے گا جو امریکہ کو ہوش میں لانے کا سبب بنے گا۔ کاش ہمارے ماضی کے حکمران بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی دانش‘ بصیرت اور سنجیدہ غور و فکر پر مبنی داخلی اور خارجی پالیسیوں سے انحراف نہ کرتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ قائداعظم نے خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول "Peace within and Peace without" ”امن اندرونی اور امن بیرونی“ قرار دیا تھا۔ انہوں نے امریکہ کی معروف صحافی مارگریٹ بروک وائیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا۔ ”امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے مگر امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ پاکستان محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کا محور ہے“۔ پاکستان کے اکثر حکمرانوں نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو قومی مفادات کی بجائے اپنے ذاتی اقتدار اور گروہی مفادات کے لئے ہی استعمال کیا۔ مشروط امریکی امدا د کے سلسلے میں علامہ اقبال کے فلسفہ پر عمل کیا جائے۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
This post appeared on the front page as a direct link to the original article with the above link
.
The economic liberalism that the world took for granted has given way to the White House’s attempt to gain sectarian control over institutions, as well as government intervention into private companies,
The economic liberalism that the world took for granted has given way to the White House’s attempt to gain sectarian control over institutions, as well as government intervention into private companies,