America Will Beg Pakistan

 .
Posted on December 22, 2011.

<--

امریکہ پاکستان سے بھیک مانگے گا

امریکی منافقت دنیا بھر میں ضرب ا لمثل بن چکی ہے، قول و فعل میں تضاد کی جتنی مثالیں امریکہ نے قائم کی ہیں وہ ایک ریکارڈ کا درجہ رکھتی ہیں۔ امریکی اپنے مفادات کی خاطر کوئی بھی غیر اخلاقی، غیر انسانی اور ظالمانہ اقدام کبھی بھی کسی کے خلاف اٹھا سکتے ہیں اور اپنے کسی بھی فعل کےلئے وہ جھوٹی تاویلیں اور بھونڈے جواز تراشنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اس سلسلے میں وہ دوست دشمن کے تکلف میں نہیں پڑتے۔ دشمن تو خیر کبھی کبھار اس کی چیرہ دستیوں سے بچ بھی جاتے ہیں لیکن اس کے دوستوں کی ہر وقت جان پر بنی رہتی ہے کیونکہ امریکہ ہر وقت اپنے دوستوں کو کسی نہ کسی امتحان سے گزار کر تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی امریکہ کے دوستوں میں ہوتا ہے چنانچہ وہ بھی اس وقت امریکہ کی متعدد ”مہربانیوں“ کی زد میں ہے۔ امریکہ نے اپنے اس دیرینہ دوست کو دہشت گردی کےخلاف نام نہاد جنگ میں بڑی عیاری سے گھسیٹ کر آگ و خون میں نہلا دیا ہے اور پاکستان اس وقت حقیقی معنوں میں میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ امریکہ کی مکاری عروج پر ہے، ایک طرف قبائلی اور شہری علاقوں میں پاکستانی فوج کو طالبان جنگجوﺅں کے ساتھ الجھا کر شاباشیاں دے رہا ہے، دوسری طرف مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کو اسلحے اور ڈالروں سے نواز رہا ہے، ساتھ ساتھ ڈرون حملے بھی جاری ہیں اور پاکستانی معیشت کا جنازہ نکالنے کی سازشیں بھی ہو رہی ہیں۔ اب امریکی ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کے جوہری اثاثوں کو بھی تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کر کے مکمل طور پر بے دست و پا کر دیا جائے اور اپنے روایتی دشمن بھارت کے لئے ترنوالہ بنا دیا جائے تاکہ یہ اسلامی ایٹمی کانٹا ہمیشہ کیلئے راستے سے صاف ہو جائے اور بھارت اس خطرے سے بے نیاز ہو کر چین کے خلاف یکسوئی سے سینہ تان کر کھڑا ہو جائے۔ امریکہ نے کتنی چالاکی سے ہمیں اپنی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتا بھی ہے، ڈو مور Do More کے مطالبے بھی کرتا ہے اور ڈرون حملوں کے علاوہ اپنے وزیروں، مشیروں اور جرنیلوں کو اسلام آباد بھیج کر دھمکاتا بھی ہے۔ وہ پاکستان میں جنگجوﺅں کو اپنا دشمن قرار دے کر ان پر حملے کرتا ہے لیکن خود افغانستان میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی سرتوڑکوششیں کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے اور اب باعزت فرار کے منصوبے بنا رہا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی کوشش یہ بھی ہے کہ جاتے جاتے وہ پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کر کے اپنا دست نگر بھی بنائے رکھے کیونکہ اس اہم خطے میں اسے پاکستان کی ضرورت کسی نہ کسی حوالے سے درکار ہوگی۔ جہاں تک افغانستان میں جنگ ہارنے کی بات ہے تو اس میں اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا ہے۔ امریکی فوج کے کمانڈر اپنی شکست کا اعتراف کر چکے ہیں اور محفوظ راستے کی تلاش میں کوشاں ہیں جو انہیں فی الحال میسر نہیں ہے۔ سرمایہ داری نظام کا حامل امریکہ معاشی لحاظ سے تباہ ہو چکا ہے۔ صہیونی شکنجے میں جکڑا ہوا امریکہ پہلے ہی معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا تھا رہی سہی کسر عراق، افغانستان اور دیگر ممالک میں جنگی مہمات نے پوری کر دی جہاں کھربوں ڈالر جنگ میں جھونکنے کے بعد بھی اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اب بھی ان ممالک میں اس کے جنگی اخراجات پر روزانہ اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے امریکی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور وہ کھربوں ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔ امریکہ اس وقت 12.9 ٹریلین ڈالر کا مقر وض ہے۔ افغانستان کی جنگ نے تو خصوصاً اس کی کمر توڑ دی ہے۔ امریکہ کتنا بے وقوف ملک ہے کہ صہیونی ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنا جانی ومالی نقصان کرائے جا رہا ہے اور حالات کا ادراک نہیں کر رہا۔ اس بے وقوف ملک کا یہ حال ہے کہ افغانستان میں اس کا کوئی رسد کا قافلہ، یا فوجی کانوائے محفوظ نہیں ہے۔ اسے اپنے قافلوں یا فوجیوں پر حملے نہ کرنے کے عوض طالبان کو رشوت دینی پڑ رہی ہے۔ پہلے اسے ڈالر دینے پڑتے ہیں تب جا کر اس کے تیل، اسلحہ، راشن اور دیگر ضروریات کے قافلے کسی علاقے سے گزرتے ہیں۔ یعنی وہ جن طالبان کے خلاف لڑ رہا ہے، اپنی سپلائی برقرار رکھنے کےلئے انہی کو رشوت دے رہا ہے۔ اس چیز کو بے وقوفی یا منافقت میں سے کوئی بھی اچھا نام دیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کی تباہی کی پیشنگوئی میں سے 2006ءمیں اپنی کتاب” موجودہ صدی کا اقتصادی انقلاب“ میں یہ کہہ کر کی تھی۔

” امریکہ کی معیشت کی مثال شاہ بلوط کے ایک ایسے بوسیدہ درخت کی مانند ہے جس کے پتے مرجھا چکے ہیں تنے کھوکھلے ہو چکے ہیں اور جڑیں گل سڑ گئی ہیں۔ یہ دیوقامت درخت کسی بھی وقت دھڑام سے گر سکتا ہے۔ اور یہ ان تمام قوموں کو بھی لے ڈوبے گا جو اس کی شاخوں تلے آرام کر رہی ہیں۔ صرفMBC نظام ہی ایک ایسی کھاد ہے جو اس درخت کو زندگی لوٹا سکتی ہے“۔

یہ پیشنگوئی میں نے امریکہ کے جنگی اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کی تھی بلکہ میں نے امریکی معیشت کا جائزہ لیکر یہ بات کہی تھی اور اگلے دو تین سالوں میں دنیا نے سرمایہ داری نظام کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی، وہ ممالک جو سرمایہ داری نظام سے وابستہ تھے انہیں بھی بدترین اقتصادی بحران نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ MBCS میرا تخلیق کردہ فارمولا ہے جو بنیادی طور پر پاکستان کےلئے بنایا گیا ہے لیکن میں نے اسے امریکی معیشت کے ساتھ منسلک کر کے جائزہ لیا اور اسے مقالے کی شکل میں امریکی یونیورسٹی کو بھجوایا۔ جنہوں نے تین ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دیں۔ یہی وہ فارمولا ہے جو میں نے رضار کارانہ طور پر حکومت پاکستان کو پیش کر دیا ہے۔ اس کی بدولت ہم صرف30 دنوں میں امریکہ کی معاشی غلامی سے نجات پا سکتے ہیں۔ امریکہ ہمیں محض اسی وجہ سے تو بلیک میل کر رہا ہے کہ ہم اپنی معاشی ضروریات کےلئے اسکے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔ جب ہمیں اس کی ضرورت نہیں رہے گی تو وہ کشکول اٹھا کر ہم سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا۔ کیونکہ اسے ہماری ضرورت ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں میں مستقل قدم جمانے کےلئے اسے پاکستان کی مدد کی ہر حال میں ضرورت ہے، یہ پاکستان ہی ہے جو جغرافیائی لحاظ سے ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ ہم صرف ایک دن کےلئے امریکی اور نیٹو افواج کےلئے رسد کی فراہمی روک دیں اور تیل کی سپلائی منقطع کر دیں تو انہیں افغانستان میں جانوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ لیکن وہ ایک سپر طاقت سہی لیکن سویت یونین بھی تو سپر پاور تھا، روس بھی تو اپنے وقت کا فرعون تھا، اس کی معاشی تباہی نے اس کی جغرافیائی حدود کا بھی شیرازہ منتشر کر دیا تھا اور ماسکو میں لوگ ایک ڈبل روٹی کےلئے در در کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہی حال امریکہ کا ہو سکتا ہے، اس کی منافقت اور عیاری کا پردہ فاش ہو چکا ہے۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ 1990ءکے روس کی طرح وہ کب کشکول اٹھاتا ہے، اس نے جو گڑھے دوسروں کے لئے کھودے تھے، اب خود ان میں گر چکا ہے۔ افغانستان اس کیلئے ویت نام بننے والا ہے اور خود کو مکمل تباہی سے بچانے کےلئے امریکہ کو پاکستان کے سامنے دست سوال دراز کرنا ہی پڑے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ معاشی طاقت بھی بن جائے جسے نہ تو کیری لوگر بل کی مونگ پھلی جتنی امداد کی ضرورت ہو اور نہ ہی آئی ایم ایف اور فرینڈز آف پاکستان کے سہاروں کا محتاج ہو۔

About this publication