America has never been a loyal friend to any country, yet it accuses us of disloyalty. It calls us incompetent, though it itself is treacherous, corrupt and dishonest. After 9/11, America claimed that Pakistan was on the front line in fighting terrorism with America. All it really had eyes on was its own interests, not its allies’. America wanted Pakistan to become enemies with all the countries that disliked America. Because Musharraf was afraid of America, he sacrificed his own country’s interests.
But when the new Pakistani government arrived, General Ashfaq Parvez Kayani came forth with two resolutions: The Pakistani army would protect the Pakistani people, and the Pakistanis would demand favors from America in return for their participation in the war on terror. The army and ISI had realized, at that point, that American policies in Pakistan were not benefiting the Pakistanis in any way. The Pakistani public and opposition parties were standing by the army, so the Pakistani government had to listen to the army’s demands.
Now our government and army is telling America that we will not do things that only benefit America; we will look at what is good for us as well. The Americans were infuriated when they heard about our shift in policy and, since then, Washington has been pressuring us. It was unrealistic for Pakistanis to lead their lives according to the Americans’ commands, so we had to tell them to treat us as their equal.
There is no doubt about the fact that America has had eyes on our nuclear program for several years. It wants to deprive us of our nuclear weapons, so that we become entirely dependent on Delhi, Kabul and Washington for our survival. For this purpose, America sent its spies here and “bought” some of our own people; it wanted to get its hands on our nuclear weapons. But the ISI and our army did not let this happen. The ISI and the army came to the important realization that we must keep the Americans away from our nuclear program, which is the source of much of our strength and vitality as a nation.
Since the change in the ISI and Pakistani army’s attitudes, America has been busy spreading its campaign of propaganda against us, accusing us of numerous crimes. When they realized the futility of their initial plan, they turned to Mike Mullen for help. They are correct in their assumptions that the Pakistani army and public are very suspicious of them. We are asking ourselves, what is there for us in all this? I, on behalf of the Pakistani pubic, have the following message for our army: If you free us from American bondage, we will be eternally grateful to you, cherish you always and even consider you our messiah.
ملکی سلامتی کےلئے امریکہ سے دامن چھڑانا ہوگا
| ـ 1 دن 20 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
ریاض احمد چودھری
بقول مرزا اسلم بیگ ، امریکی لفظ وفا سے آشنا ہی نہیںہیں۔ انہوںنے آج تک کسی دوست کے ساتھ وفا نہیں کی۔لیکن دوسری طرف ہمیں ہی بے وفا اور ناقابل اعتماد دوست گردانا جا رہا ہے۔ جوبائیڈن کے مطابق پاکستان امریکہ کا ناقابل اعتماد دوست ہے۔ ہم پر ناقابل اعتماد ہونے کا الزام وہ عائد کر رہے ہیں جن کی سرشت میں بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار دیا تو طاقت کے نشے میں اس نے صرف اپنے مفادات پر نظر رکھی اور اپنے اتحادی کے مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اس کی خواہش تھی کہ پاکستان ہر ایسے گروہ کو روند ڈالے جو امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ مشرف چونکہ امریکہ سے خوفزدہ تھے اس لئے انہوں نے امریکی جنگ میں اپنے ملک کے مفادات کو بھی داﺅ پر لگا دیا اور یوں امریکیوں کے منہ کو جیسے خون لگ گیا۔ انہوں نے پاکستان کو ایسے راستے پر ڈال دیا جس سے واپسی تقریباً ناممکن تھی تاہم جب پاکستان میں حکومت تبدیل ہوئی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف بنے تو ان کے سامنے دو بڑے چیلنج تھے۔ اول پاک فوج پر قوم کے اعتماد کی بحالی اور دوم امریکی جنگ میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ۔ ا±دھر صورتحال یہ تھی کہ نئی حکومت فوج اور آئی ایس آئی کے کردار کے حوالے سے امریکیوں کے ساتھ کچھ ایسی بات چیت کر رہی تھی جس سے پاک آرمی کے مفادات کو زک پہنچنے کا خدشہ تھا۔ پوری قوم اور سیاسی جماعتیں چونکہ اس حوالے سے فوج کے ساتھ کھڑی تھیں اس لئے حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور آگے چل کر حکومت نے فوج کے ساتھ اپنے تعلقات بھی بہتر بنالیے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ فوج اور حکومت کبھی مبہم طریقے سے اور کبھی اشاروں کنایوں میں امریکہ کو باور کرا رہی ہے کہ سب کچھ ویسے ہی نہیں چلے گا جیسے چل رہا تھا بلکہ اب امریکہ کو اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفادات بھی دیکھنا ہوں گے۔ یہ صورت حال چونکہ امریکہ کے لئے نئی اور مشکل تھی اس لئے واشنگٹن نے دباﺅ اور تحریص کے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیئے۔ ادھر پاکستان کے لئے چونکہ ہر امریکی خواہش پر لبیک کہنا مشکل تھا اس لئے امریکیوں کو بتا د یا گیا کہ اب معاملات برابری کی بنیاد پر ہی چلیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ حالیہ چند برسوں سے امریکیوں کی نظریں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر لگی ہوئی ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں ہمیں ان اثاثوں سے محروم کر دینا چاہتا ہے تاکہ اس کے بعد ہم واشنگٹن ، دہلی اور کابل کے رحم و کرم پر ہوں۔ اس مقصد کے لئے اس نے پاکستان میں اپنے جاسوس داخل کیے ، ہمارے لوگ خریدے اور کوشش کرتا رہا کہ ان اثاثوں کے قریب پہنچ جائے۔ اس کی ان کوششوں کو پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی نے کلی طور پر ناکام بنا دیا اور اب جبکہ وہ اپنے عزائم کو بے نقاب کرچکا ہے تو حکومت اور آرمی دونوں کو سمجھ آگئی ہے کہ امریکیوں کو ایک خاص حد میں رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ ہمیں اپنے تحفظ کی سب سے مضبوط ضمانت سے محروم کر دیں گے۔
امریکی عزائم کو ناکام بنانے میں چونکہ پاک آرمی نے کلیدی کردار ادا کیا اس لئے انہوں نے مختلف حوالوں سے افواج پاکستان کو اپنا ٹارگٹ بنالیا اور اس کے خلاف بے بنیاد اور مذموم پراپیگنڈے میں لگ گئے۔ ادھر سے بھی آنکھیں دکھائی گئیں تو امریکیوں کو یقین ہوگیا کہ اب وہ پاکستانی فوج کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال نہیں کرسکے گا چنانچہ مائیک مولن کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بالکل ٹھیک سمجھ رہے ہیں کیونکہ فوج ہی نہیں عوام بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی چاہتے ہیں اور ایسی امریکی امداد لینے سے گریزاں ہیں جس کے ساتھ امریکی مفادات اور مطالبات کی لمبی فہرست جڑی ہو۔ ہم پاک فوج کے سربراہ کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر انہوں نے ملک اور قوم کو امریکی غلامی، قرضوں اور امدادوں کے چنگل سے نکال دیا تو قوم انہیں اپنا مسیحا سمجھے گی اور وہ پاکستانی تاریخ کے مقبول ترین جرنیل بن جائیں گے۔
This post appeared on the front page as a direct link to the original article with the above link
.
The madness lies in asserting something ... contrary to all evidence and intelligence. The method is doing it again and again, relentlessly, at full volume ... This is how Trump became president twice.