U.S. Secretary of State Hillary Clinton has been saying many things to Pakistan over the years. She has been angry at us, she has admonished us, and at times, she has made us greedy for money. Today, Oct. 21, she will be arriving in Islamabad. Over the past few weeks, relations between the U.S. and Pakistan have been like a “roller coaster.” Over the past 10 years, Pakistan sacrificed a lot for the U.S. and helped it in any way possible. Then Washington stabbed Pakistan in the back.
The former U.S. Joint Chiefs of Staff accused Pakistan of aiding terrorists. He claimed that the Haqqani Network received direct support from the Inter-Services Intelligence (ISI). This was the same man who used to say great things about the Pakistani army some years back. Now, it took him only one minute to destroy the relations between the U.S. and Pakistan. Pakistan’s army chief, General Parvez Ashfaq Kayani, has said that he would not bomb North Waziristan and won’t take actions which will be detrimental to Pakistan. Washington wanted Pakistan to attack all of al-Qaida’s “safe havens” in North Waziristan. Everyone in their establishment, from Obama and Clinton to Mullen and Panetta, wanted Pakistan to do this. Now, having been disappointed with us, they issue us a new threat every day.
We have learned about a secretive meeting that took place between General Kayani and Obama’s national security advisor, Thomas E. Donilon, in Saudi Arabia some time ago. According to the report, Donilon told Kayani that the U.S. wanted to maintain relations with Pakistan but that Pakistan would have to pick one of the following three choices (so that the Haqqani attacks would stop): “Kill the Haqqani leadership, help us kill them or persuade them to join a peaceful, democratic Afghan government.”
General Kayani, in response to Donilon’s demands, spoke at a Pakistani parliamentary briefing and stated that Donilon’s options would only be decided by the Pakistani parliament. He said that Pakistan would not sacrifice its own stability and interests for the sake of another country’s interests. He did not think it wise to carry out violent investigations and operations in North Waziristan. If the Pakistani government wanted to engage in a peaceful dialogue with the Taliban, he stated, then it should be able to do so.
There was nothing wrong with General Kayani’s statements. It took America a long time to come to the realization that Pakistan is not an easy target like Iraq and Afghanistan. We are a nuclear state, capable of making our own decisions. If Hillary Clinton is coming to Pakistan to greet us in a friendly manner, then we Pakistanis (the government, the army, the millions of people living below the poverty line) look forward to her visit and will welcome her. But we will not be welcoming her if she is coming to further Donilon’s agenda (which also includes making India the leader of South Asia). We will no longer accept Washington’s old agenda.
ہلیری کلنٹن کی آمد بلا وجہ نہیں ہے
| ـ 21 اکتوبر ، 2011
امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پاکستان سے کچھ عرصہ کی بے رخی کہیئے یا ناراضگی گردانیئے یا سفارتی زبان میں کبھی لالچ کبھی ڈانٹ ڈپٹ کے تمام ہتھکنڈے بے سود ثابت ہونے کے بعد بالآخر 21 اکتوبر بروز جمعة المبارک اسلام آباد قدم رنجا فرمائیں گی۔ پاکستان امریکہ تعلقات گزشتہ چند ہفتوں کے دورانیہ میں Roller coaster کی طرح انتہائی اونچ نیچ سے گزرے ہیں۔ گزشتہ 10 سال سے عالمی دہشت گردی کی جنگ میں اپنے انتہائی عزیز تر اتحادی ملک پاکستان سے جس نے باقی تمام اتحادی ممالک سے بڑھ چڑھ کر سب سے زیادہ قربانیاں دیکر اپنے تمام وسائل اس جنگ میں جھونک دیئے تھے۔ واشنگٹن نے محض اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے پاکستان سے یوں آنکھیں پھیر لیں جیسے کبھی آشنا تک نہ تھے۔ امریکی افواج کے سابق چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف نے یہ کہہ کر الزام تراشی کی حد کر دی کہ پاکستان اپنے ملک سے باہر دہشت گردی برآمد کر رہاہے۔ اور مزید برآں افغانستان میں طالبان کا ایک پختون اتحادی قبیلہ جو حقانی نیٹ ورک کے نام سے معروف ہے پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) کا ایک بازو ہے۔ ایڈمرل موصوف جنہوں نے اپنے عہدہ کے دورانیہ میں امریکی فوجی اور سٹرٹیجک مفاد کو پروان چڑھانے کیلئے خود اپنی زبان میں 130 بار اسلام آباد کی یاترا کی تھی۔ اور پاکستان کی اہم ترین سیاسی شخصیات کے علاوہ جی ایچ کیو کی فوجی قیادت پر وہ ہمیشہ ناز کرتے تھے۔ اک ذرا سی بات پر برسوں کے تعلقات کو مٹی میں ملانے پر ایک سیکنڈ کا توقف بھی نہیںکیا۔ کیونکہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی حکومت کے احکام کے بغیر اور پاکستان کے اعلی ترین مفاد کے برخلاف شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ واشنگٹن کا اصرار تھا کہ نارتھ وزیرستان میں القاعدہ اور طالبان کے تمام ”محفوظ ٹھکانوںکا قلع قمع کیا جائے“ جن میں حقانی نیٹ ورک کے "Safe heavens" سر فہرست تھے۔ جبکہ پاکستان ایسے ٹھکانوں سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ سے ایسے مفروضہ ٹھکانوں کا محل وقوع اور دیگر تفصیلات کا مطالبہ کرتا تھا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایسی تفصیلات مہیا کئے بغیر پوری اوبامہ انتظامیہ جن میں پینٹاگان کے نئے وزیر دفاع Panenta اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے علاوہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر سب کے سب مل کر ایڈمرل مولن کا پاکستان کے خلاف زہر آلود راگ الاپنے میں شامل تھے چنانچہ پاکستان امریکہ تعلقات کے اس مایوس کن اور تاریک ترین دورانیہ میں پاکستان کو طرح طرح کی سبق سکھانے والی دھمکیاں دی گئیں۔
ادھر صدر اوبامہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے وائٹ ہاﺅس میں نئی وضع کردہ سٹرٹیجی کے تحت پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی کو این ایس اے Thomas E Donilon نے کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب میں ایک ملاقات کے دوران خفیہ طور پر جنرل کیانی کو پہنچائے جن کا گزشتہ اتوار 16 اکتوبر کی اخبارات میں انکشاف ہوا ہے۔ ان اطلاعات کے مطابق صدر اوبامہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے جنرل کیانی کو یقین دلایا کہ امریکہ پاکستان سے تعلقات برقرار رکھنے کا خواہاں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی USA also wanted the Haqqani attacks to stop"پاکستان کے حکومتی ذرائع کے مطابق Donilon offered Kiyani three choices; kill the Haqqani leadership, help us to kill them or persuade them to join a peaceful, democratic Afghan government
پاکستان کے آرمی چیف نے صدر اوبامہ کی اپنے قومی سلامتی کے مشیر کے ذریعے پیش کردہ تین Choices کا جواب دینے کیلئے گزشتہ دنوں جی ایچ کیو میں عسکری قیادت کی طرف سے پاکستان کی سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کی بریفنگ کے دوران واضح الفاظ میں وائٹ ہاﺅس کو یہ جواب دیا ہے کہ "Thomas E Donilon" کی طرف سے پیش کردہ تمام آپشنز کے فیصلے پاکستان کی پارلیمنٹ کرے گی۔ امریکہ سے تعلقات میں ملکی وقار پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ موجودہ حالات میں شمالی وزیرستان میں کسی فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اگر حکومت پاکستان ملک کے اعلی ترین مفاد میں طالبان سے مذاکرات کے دروازے کھولنا چاہے تو فوج کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا“۔ آرمی چیف کے اس بیان میں کوئی ابہام نہیں ہے لیکن میری ناقص رائے میں بہت دیر کے بعد واشنگٹن پر بالآخر اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان عراق‘ افغانستان اور اسی طرح کا کوئی دھمکیوں میں آنے والا ملک نہیں ہے۔ بلکہ ایک ذمہ دار نیوکلیئر قوت ہے جس پر صرف اور صرف برابری کی سطح پر تعلقات فروغ پا سکتے ہیں۔ اگر وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حقیقتوں سے آشنا ہو کر از سر نو پاکستان سے بگڑے ہوئے تعلقات کو استوار کرنے کیلئے اسلام آباد تشریف لا رہی ہیں تو پاکستان کی حکومت اور فوجی قیادت کے علاوہ پاکستان کے عوام بھی جنوبی ایشیاءمیں پائیدار امن کے قیام اور اس خطہ کے 150 ارب پسماندہ غربت کی لکیر کے نیچے پسے ہوئے طبقوں کی خوشحالی کیلئے ہیلری کلنٹن کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ صدر اوبامہ کے قومی سلامتی کے مشیر Thomas Donilon کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کیلئے جس میں جنوبی ایشیاءکی تھانیداری بھارت کے حوالے کرنا بھی ان کی تشریف آوری کا مقصود ہے۔ شاید واشنگٹن کے پرانے ایجنڈے کو فروغ دینے کا وقت گزر چکا ہے۔
This post appeared on the front page as a direct link to the original article with the above link
.