National Security Counsel Refuses Briefing from American Ambassador

<--

قومی سلامتی کونسل کے ارکان کا امریکی سفیر سے بریفنگ لینے سے انکار

پاکستان میں متعین امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے قومی سلامتی کی قرارداد پر عملدرآمد کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ رضا ربانی کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے امریکہ کی جانب سے جاسوس طیاروں کے حوالے سے اپنا موقف دینے کی پیشکش کی ہے۔ ذرائع کے مطابق قومی سلامتی بارے پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ کو لکھے جانے والے خط میں امریکی سفیر نے لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو جاسوس طیاروں کے حملوں کے حوالے سے امریکہ اپنا موقف پیش کرنا چاہتا ہے۔ خط میں استدعا کی گئی تھی کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے اجلاس میں امریکی سفیر کو مدعو کیا جائے تاکہ کمیٹی کو امریکی موقف کے حوالے سے بریفنگ دی جاسکے۔

امریکی سفیر کی جانب سے بھیجنے جانے والے خط کے بعد رضا ربانی نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں امریکی سفیر کو مدعو کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کمیٹی ممبران سے مشاورت کی تاہم متعدد ارکان نے امریکی سفیر کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ کی مخالفت کر دی۔ جب اس حوالے سے رضا ربانی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جہاں تک امریکی سفیر کی درخواست کا تعلق ہے تو فی الحال ہم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اگر بریفنگ ضروری ہوئی تو وزارت خارجہ کے ذریعے کوئی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔

جمہوریت کا سب سے خوبصورت ثمر یہی ہوتا ہے کہ تمام کام بحث و تمحیص کے بعد مشاورت سے ہوتے ہیں اور کسی فرد واحد کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ پوری قوم کی رائے کو ایک طرف رکھ کر اپنے فیصلے ٹھونسے۔ فرض کیا یہی صورتحال سابق صدر مشرف کے دور میں پیش آتی جو صدر زرداری کے دور میں پیش آئی ہے تو کس کی مجال تھی کہ وہ امریکی سفیر کی خواہش کو ٹھکراتا؟

اب اس معاملے میں رضا ربانی کی ذاتی منشا یا رضا کیا تھی یہ تو وہ جانتے ہیں یا اللہ جانتا ہے لیکن انہوں نے جمہوری طریقے سے کمیٹی کے تمام ارکان سے رابطہ کرکے انہیں امریکی سفیر کی خواہش سے آگاہ کیا اور جب اکثریتی ارکان کی طرف سے نفی میں جواب ملا تو امریکی سفیر کو اس جواب سے آگاہ کر دیا گیا۔ ہمیں یہ تو پتہ نہیں کہ کمیٹی کے کس ممبر نے رضا ربانی کو کیا جواب دیا لیکن مولانا سمیع الحق کی یہ رائے ہم نے ضرور پڑھی کہ امریکی سفیر سے بریفنگ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے ساتھ مولانا نے یہ دلیل بھی دی کہ اس موقع کی مناسبت سے امریکی سفیر سے کئی سوالات بھی کئے جاسکیں گے۔

ممکن ہے مولانا سمیع الحق کی نیت یہی ہو کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھا کر چند تلخ سوالات کر سکیں گے لیکن مولانا کو یہ بات کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ چیزیں آئینی تقاضوں کے اندر رہیں تو اچھی لگتی ہیں اور باہر نکل جائیں تو بہت بری اور بھدی لگتی ہیں۔

ریاستی پروٹوکول کے مطابق امریکی سفیر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ قومی سلامتی کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی کے ارکان کو بریفنگ دیں سکیں۔ سفیروں کا کی منصبی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے ملک کا کوئی پیغام پہنچانا ہے تو دفتر خارجہ سے رابطہ کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کمیٹی کے ارکان نے امریکی سفیر سے بریفنگ لینے سے انکار کرکے جرات مندی کا ثبوت دیا ہے اور یہ اسی جمہوریت کا فیض ہے جس کے لئے ہم نے تحریر کے محاذ پر آٹھ سال تک متواتر لڑائی لڑی۔

امریکہ کو پاکستان میں جمہوریت کیوں تکلیف دیتی ہے۔ وہ آمریت کو ہر بار کیوں سپورٹ کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں ہر کام مشاورت سے ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کو بائی پاس نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ امریکہ ”ون ونڈو آپریشن” کے ذریعے ہر کام منٹوں میں کرلینا چاہتا ہے۔ اس کی ان بگڑی ہوئی عادتوں کو درست کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت کو مضبوط کریں اور آمریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیں۔ ہمیں قائداعظم کے اس فرمان کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔

About this publication